تبصرہ ماہنامہ ’’افکارِ ملّی‘‘ دہلی
تمباکونوشی آج کا عام مزاج ہے،اکثر جوان لڑکے، شوقین مزاج عام نوجوان اور نوعمر طلبہ سبھی سگریٹ نوشی، پان، تمباکو مسالہ اور گٹکا وغیرہ کھانے کے شوقین ہیں ۔ خاصے گریجویٹ اور تعلیم یافتہ افراد بھی سگریٹ نوشی کو قابلِ فخر سمجھتے ہیں ۔
یہ آج کے معاشرے کی بنیادی کمزوری بن چکی ہے۔ اس کے جسمانی و ذہنی نقصانات متعدد ہیں ۔بہت سی کتابیں اس کے اجتماعی و اقتصادی حیثیت کا مطالعہ کرنے کے لیے لکھی گئی ہیں ۔جدید مطالعات سے یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ تمباکو کا آغاز اصلاً یورپ والوں نے کیاہے۔ تمباکونوشی سے وقتی طور پر ایک سرور کی کیفیت ضرورپیداہوتی ہے لیکن اس کے اندر ۲۵۰؍زہریلے مادے ہیں ، جن کے اثرات دل پر اور ہائی بلڈ پریشر کی شکل میں ظاہر ہوتاہے۔ اس کے علاوہ پھیپھڑے کے کینسر ، جلن، آنتوں اور گردوں کی بیماریاں اور معدے کا زخم اور دوسری بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ۔ زیر نظر کتاب میں پانچ ابواب کے تحت تمباکو کی حقیقت، اس کی تاریخ، عرب اور مسلم ممالک میں اس کی آمد ، اس کی طبی و شرعی حیثیت ، اسلام اور دیگر مذاہب میں اس کی اباحت ، مختلف مسالک میں اس کی حرمت اور مختلف علماء کے دلائل اور مراکزِ افتاء کے فتاوے وغیرہ پر اچھی روشنی ڈالی ہے۔ مصنف کے نزدیک اس کا استعمال مکروہِ تحریمی ہے ۔ ممکن ہے کہ ان کی رائے سے بعض لوگوں کو اتفاق نہ ہو، تاہم حرمت پر اتفاق نہ سہی یہ بات سب مانتے ہیں کہ یہ اسراف ہے، نقصان دہ ہے۔ کتاب علمی حیثیت سے اچھی ہے ، پیشکش مناسب ہے اور پڑھے لکھوں کے لیے ایک اچھی کوشش ہے۔
ماہنامہ ’’افکارِ ملی‘‘ شمارہ جنوری ۲۰۰۴ء
تبصرہ بقلم مولانا غطریف شہباز ندوی