نظر سے دیکھتے ہیں اور خود بصدشوق اسکو استعمال میں لاتے ہیں جنکی وجہ سے برصغیرہند میں تمباکو کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے اب تک کوئی خاطر خواہ مہم شروع نہیں ہوسکی ۔
حرمت کے سلسلے میں علمائے کرام کی تحقیقات ملاحظہ فرمائیں :
علمائے احناف :
ابوالحسن مصری حنفی فرماتے ہیں :
’’ صحیح اور منقول آثار اور واضح عقلی دلائل اس کی حرمت کا اعلان کرتے ہیں ۔ اس کا وجود ۱۰۰۰ء ھ کے لگ بھگ ہوا ۔ اور سب سے پہلے یہود ، نصاریٰ اور مجوس کی سرزمین میں منظر عام پر آیا ۔ اور ایک یہودی شخص نے مغرب اقصیٰ کے علاقہ میں طبابت کے بہانے لوگوں کو اس سے متعارف کرایا ۔ اسی طرح ارض روم میں ایک عیسائی اتکلین نے اور سوڈان میں مجوسیوں نے ۔ پھر مصر اور حجاز اوردیگر ممالک میں اسے عام کیا گیا ۔
اللہ نے ہر نشہ آور چیز سے منع کیا ہے ۔ اگر کہا جائے کہ یہ نشہ آور نہیں ہے تو ( اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ) اس کے پینے والے کے ظاہری وباطنی اعضاء کو بے حس اور کمزور کرتاہے ۔ نشہ آور سے مراد مطلق عقل پر پردہ ڈالنا ہے ۔ خواہ اس میں زیادہ شدت نہ ہو ، اس میں کوئی شک نہیں کہ جو پہلی دفعہ اس کو استعمال کرتاہے یہ کیفیت اس کو طاری ہوتی ہے ۔ اگر اس کا نشہ آورہونا تسلیم نہ کیا جائے تو (اس میں کوئی شک نہیں کہ ) وہ کم از کم مخدر (یعنی اعضاء کو سن اور بے حس کرنے والا ) اور مفتر ہے ۔
امام احمد اور ابوداؤد نے حضرت ام سلمہؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر مسکر اور مفتر سے منع فرمایا ہے ۔
علماء کے نزدیک مفتر ہر وہ چیز ہے جو اعضاء میں کمزوری اور بے حسی