حرام کا فیصلہ کیا جاتاہے مثلاً مضر چیز کا استعمال فقہاء نے ممنوع قرار دیا ہے ’’ ویحرم ما یضر البدن أوالعقل ‘‘ کیونکہ باتفاق اہل اصول وفقہاء کلیات خمس کی حفاظت ضروری ہے جن میں سے بدن اور عقل ہے ، لہذا کوئی شخص ایسا اقدام کرنے کا مجاز نہیں ہے جس سے اس کے بدن کو خطرہ یا عقل کو ضرر لاحق ہو ، اس ضابطہ کے تحت بھانگ ، حشیش اور افیم حرام قرار دی گئی ہے ، جب کہ قرآن و حدیث میں ان اشیاء کی حرمت پر نص صریح موجود نہیں ہے ، اور بہت سی اشیاء ہیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود نہیں لیکن فقہاء نے قرآن و حدیث کی روشنی میں غوروفکر کے بعد ان کے بارے میں حلّت یا حرمت کی رائے قائم کی ہے اوریہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا ۔
تمباکو کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کیونکہ وہ عہد نبوی اور خیرالقرون میں متعارف نہیں تھا ، تقریباً چارصدی قبل اس کے عام ہونے کے بعد جن علماء کو اس کے اندر سمّیت کا علم ہوا اسے حرام قرار دیا ، بعض علماء نے اس کی حرمت کے متعدد اسباب و علل بتائے ہیں ، سید محمد بن جعفر کتانی ادریسی نے اس کی حرمت کے ۱۶ اسباب مع دلائل ذکر کیے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ بھانگ ، حشیش اور افیم کی حرمت کے جو اسباب الدرالمختار (۵؍۲۹۴، ۲۹۵) میں بتائے گئے ہیں وہ تمباکو میں بھی موجود ہیں بلکہ ان سے زیادہ ہیں ، لہذا تمباکو کو ممنوع الاستعمال تسلیم کرنے میں کوئی تردّد نہیں ہونا چاہیے ۔
اباحت اصلیہ سے استدلال:
بعض اہل علم ایک فقہی قاعدہ’’الأصل فی الأشیاء الاباحۃ‘‘ کے تحت تمباکو کو جائز ثابت کرتے ہیں ،حالانکہ اس قاعدہ کے بارے میں خود اصولیوں کا اتفاق نہیں ہے بلکہ اس میں کافی اختلاف ہے کہ آیا اصل اشیاء میں حرمت ہے یا اباحت ہے یا توقف؟ تفصیل کے لیے دیکھیے شوکانی کی ارشاد الفحول ص ۲۵۱۔۲۵۲ مطبوعۃ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ۔
بلکہ صحیح یہ ہے کہ اباحت کا حکم غیر مضر کے ساتھ خاص ہے ، اگر شے مضر ہے تو مباح نہیں