ڈاکٹر ابراہیم الشامی نے تو تمباکو نوشی کو موت کے فرشتے عزرائیل سے تشبیہ دی ہے چنانچہ انہوں نے اپنی کتاب کا نام ’’ التدخین عزرائیل العصر الحدیث ‘‘ رکھا ہے ۔
تمباکو کمپنیوں سے حکومت جو ٹیکس وصول کرتی ہے اس سے کہیں زیادہ پیدا ہونے والی بیماریوں پر علاج کے لیے خرچ کردیتی ہے اور سگریٹ بیڑی سے آتش زدگی کے جو واقعات ہوتے ہیں اس سے سالانہ اربوں کا نقصان ہوتا ہے اور تمباکو نوش ملازمین غیر تمباکو نوشوں کے مقابلے میں کام کم کرتے ہیں ، غرضیکہ تمباکو کے جسمانی نقصانات کے ساتھ ساتھ معاشی ومعاشرتی نقصانات بہت کافی ہیں ان سب پر روشنی ڈالنے کے لیے مستقل ایک تصنیف کی ضرورت ہے۔
تمباکو کی اس ہلاکت خیزی اور بربادی کے باوجوداگر کوئی اسے پاکیزہ اور جائز شے تصور کرتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کے حواس خمسہ صحیح طور پہ اپنا کام نہیں کررہے ہیں ۔ کیونکہ اشرف المخلوقات انسان جس ’’ خشک مے ‘‘ کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے اس سے چرند وپرند تک نفرت کرتے ہیں ، سچ کہا ہے کسی نے :
کل البھـائم والـطیـور تبـاعدت لم تستطع للأکل من أشجـارہ
وکـذا الـحـمـام إذا رآہ بقـربہ ترک المکان وحاد عن أوکارہ
والنحل لم تأکلہ حال سلوکھا أبـداً ولـم تـنـزل عـلی أزھارہ
تمباکونوشی اسراف ہے:
تمباکو نوشی جب غیر شرعی فعل ہو اتو اس پر رقم خرچ کرنا بلا شبہ بے جا مال خرچ کرنا ہے جسے اسراف و تبذیر سے تعبیر کیا جائے گا اور شریعت میں بے جا خرچ ممنوع ہے اور بے جا خرچ کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ولاتبذر تبذیراً إن المبذرین کانوٓا إخوان الشیاطین وکان الشیطان لربہ کفوراً ‘‘ (الاسراء:۲۶۔۲۷)