سکتی ہے ۔
تمباکو کے مذکورہ بالا خطرناک نتائج کی روشنی میں اہل علم کا خاموشی اختیار کرلینا بلکہ خود تمباکو کو صبح و شام پابندی سے اور مختلف طریقوں سے استعمال کرنا اور مہمانوں کی اس سے تواضع کرنا کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا۔
یہ صحیح ہے کہ عہد نبویؐ اور قرونِ اولیٰ میں اسلامی معاشرہ تمباکو سے نا آشنا تھا جس کی وجہ سے احادیث آثار صحابہ و تابعین اور اقوال ائمہ مجتہدین میں اس کی حرمت و حلت کا ذکر موجود نہیں ہے ، لیکن جس وقت یعنی دسویں صدی ہجری کے اواخر اورگیارہویں کے اوائل میں اس کا وجود اسلامی معاشرے میں ہوا ہے ۔ اسی وقت سے علمائے وقت نے انسداد تمباکو نوشی کی مہم شروع کردی تھی اور اس سلسلے میں مستقل رسالے تالیف کیے یا اپنی فقہی کتابوں میں منشیات کے باب میں اس کی شرعی حیثیت بیان کی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔ درج ذیل فہرست کتب سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ علماء اور دانشوروں نے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کس قدر کوشش کی ہے :
کتاب ؍ مؤلف
۱۔ الادراک لضعف أدلۃ التنباک ، الامیر محمد بن بدر الدین اسماعیل بن صلاح الصنعانی
۲۔ الادلۃ الحسان فی بیان تحریم شرب الدخان،سلیمان بن محمد بن محمد بن ابراہیم الفلانی
۳۔ إعلام الاخوان بتحریم الدخان،محمد بن علی بن محمد علان الصدیقی الشافعی
۴۔ الاعلان بعدم تحریم الدخان،سلامۃ بن حسن الراضی الشاذلی
۵۔ اقامۃ الدلیل والبرھان علی تقبیح البدعۃ المسماۃ بشرب الدخان محمد بن الصدیق الحنفی الیمنی
۶۔ الایضاح والتبیین فی حرمۃ التدخین، محمد بن عبد اللہ الطرابیشی الحلبی
۷۔ البرھان علی تحریم الدخان،ابو طالب ابن علی الحنفی
۸۔ تأیید الاعلان بعدم تحریم الدخان،محمد بن سلامۃ حسن الراضی
۹۔ تبصرۃ الاخوان فی بیان أضرار التبغ المشہور بالدخان،محمد بن عبد اللہ الطرابیشی الحلبی
۱۰۔ التبغ تجارۃ الموت الخاسرۃ ۔ڈاکٹر محمد علی البار