عبادت دُرست نہیں ، بلکہ تمباکو نوش علمائے دین کو امامت، خطابت اور افتاء سے دور رکھنا چاہیے لیکن یہ احتیاط اور اعتدال سے تجاوز ہے۔ قولِ متوازن یہی ہے کہ تمباکو کی غیر معمولی ضرر رسانی اور اس کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے ہرممکن حد تک اس سے اجتناب کیا جائے، کتاب کا اصل پیغام یہی ہے۔فقہی مباحث کی قدرے خشک فضا میں اردو اور فارسی کے قدیم اور کچھ جدید اشعار پیش کرکے ضیافت ِ طبع کا سامان بھی مہیّا کردیا گیاہے، کتاب کی افادیت بہرحال مسلّم ہے۔
تبصرہ بقلم مولانا محمد عمیر الصدیق دریابادی ندوی
ماہنامہ ’’معارف‘‘ شمارہ فروری ۲۰۰۳ء
تبصرہ پندرہ روزہ ’’تعمیر حیات‘‘ لکھنؤ
کتاب میں تمباکو کی حقیقت اور اس کا علمی و تاریخی پسِ منظر اور اس کی طبی حیثیت کو جہاں بیان کیاگیاہے وہیں اباحت و حرمت کے سلسلے میں مسالکِ اربعہ کے علماء کی آراء بیان کی گئی ہیں ۔ فاضل مصنف اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سبھی مکاتب ِ فکر کے علماء کے مابین تمباکو کی حلت و حرمت کے بارے میں اختلاف رہاہے لیکن اس پر سب کا اتفاق پایا جاتاہے کہ مضر صحت چیز سے پرہیز کرنا چاہیے اور اطباء کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ مضر صحت ہے۔ صرف استعمال کرنے والے کے لیے ہی نہیں بلکہ ان سب کے لیے جو اس فضا میں سانس لیتے ہیں ، حرمت پر اتفاق نہ بھی ہو لیکن اسراف ہونے پر اتفاق ضرور ہے۔ فاضل مصنف نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پورے دلائل کے ساتھ تمباکو اور اسی کے ضمن میں بیڑی ، سگریٹ، حقہ وغیرہ کے مسئلے پر بحث کی ہے، معاشرہ سے اس وبا کو ختم کرنے کی ان کی یہ ایک کوشش ہے۔
پندرہ روزہ ’’تعمیر حیات‘‘ شمارہ۲۵، اگست ۲۰۰۳ء
تبصرہ بقلم مولانا محمود حسنی ندوی