تبصرہ ماہنامہ’’جدید النصیحۃ‘‘ حیدر آباد
موجودہ دور میں فکر و عمل کی جو اِباحیت پیدا ہوئی ہے وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔ ماحول کے حد درجہ مکدّر ہونے کی وجہ سے بہت سی بے وقار اور بے وقعت چیزیں باوقار اور باعث ِ عزت بن گئی ہیں ۔ کالا سفید گردانا جانے لگاہے، حقیر عمل باعزت مانا جانے لگاہے، وہ اعمال جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں اور مذہبی اعتبار سے بھی ناپسندیدہ ہیں ، آج کے زمانے میں اتنے مروّج ہوچکے ہیں کہ ان سے لوگوں کو روکنا اور ان اعمال پر نکیر کرنا مشکل ہوگیاہے۔ اس طرح کی چیزوں میں سے ایک تمباکو کا استعمال اور سگریٹ نوشی بھی ہے۔ آج چاہے بڑے بوڑھے ہوں یا پھر کالج کے نوجوان لڑکے، محنت مزدوری کرنے والے غریب لوگ ہوں کہ ان کی محنتوں سے فائدہ اٹھانے والے امیر، سب کے سب اس لعنت کے شکار ہیں اور حد تو یہ ہے کہ باوقار اور بے وقار دونوں طرح کے گھرانوں کی عورتیں بھی اس لعنت میں مبتلا ہورہی ہیں ۔ ہمارے ایک بزرگ عالم نے ایک واقعہ سُنایا کہ ایک جگہ نوبیاہتا جوڑے میں چل رہے تنازعہ کو حل کرنے کے لیے انہیں بلایا گیا، جس میں شوہر کسی طرح اپنی بیوی کے ساتھ رہنے پر راضی نہ تھا۔انہوں نے اسے بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک اور اس کی کمیوں پر صبر کرنے سے متعلق اللہ و رسول کی ہدایات سُنائیں تو وہ غصّہ میں بھرا ہوا سیدھا کمرہ میں گیا اور ایک ڈبّہ لاکر یہ کہتے ہوئے دِکھایا کہ میری بیوی روزانہ یہ کھانے کی عادی ہے، میں اس کے ساتھ کیسے رہ سکتا ہوں ؟۔۔۔۔۔ مولانا کہتے ہیں کہ اس ڈبّہ میں ڈھیر سارے گٹکھے کے پیکٹس تھے، کچھ استعمال شدہ اور کچھ ابھی استعمال نہیں کیا گیاتھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے لیے یہ اچانک صورتحال تھی اور میں اس شخص سے کچھ نہ کہہ سکا اور سیدھے واپس چلاآیا۔
سگریٹ نوشی اور تمباکو کے سلسلے میں مولانا حفظ الرحمن اعظمی ندویؔ استاذ جامعہ ہدایت، جے پور(راجستھان) نے بیحدمفید تصنیف ’’تمباکونوشی اور اسلام‘‘ کے نام سے پیش