’’ الدخان المذکور حرام لمن یغیب عقلہ أو یؤذی جسدہ إذا أخبرہ بذلک طبیب عارف یوثق بہ، أو علم من نفسہ بتجربۃ وإلا فہو غیر حرام واللہ أعلم ‘‘ ۱؎
ترجمہ: ’’ مذکورہ تمباکو اس کے لیے حرام ہے جس کی عقل کو زائل کر دے یا اس کے جسم کو تکلیف پہونچائے جب کہ ماہر اور قابل اعتماد ڈاکٹر اس کے بارے میں اسے آگاہ کرے یا خود ہی اپنے تجربے سے جان لے، ورنہ حرام نہیں ہے ۔واللہ اعلم‘‘
ابو العباس احمد بن بابا سوڈانی مالکی نے بھی اباحت کا فتویٰ دیا ہے اور اس موضوع پر ایک رسالہ بعنوان ’’اللمغ فی حکم شرب طبغ ‘‘ تالیف کیا ہے۔
علمائے شافعیہ:
شوافع میں سے عمر بن عبدالرحیم حسینی شافعی تمباکو کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں رقم طراز ہیں :
’’ التوقف فیہ عن القطع بأحد الطرفین أسلم للدین واٰمن من الخطر عند المحاسبۃ فی یو م الدین لکن الذی تقتضیہ قواعد أئمتّنا تحریمہ ، إن أدی إلی الاسکار ، وإن أضر بالعقل والبدن حرم لاضرارہ ، وکذا لواعترف شخص أنہ لا یجد فیہ نفعاً بوجہ من الوجوہ ، فینبغی أن یحرم علیہ لامن حیث الاستعمال بل من حیث إضاعۃ المال ، إذ لا فرق فی حرمۃ إضاعتہ بین إلقائہ فی البحر، أو إحراقہ بالنار ، أوغیر ذلک لأن المعتمد الأصل فی
------------------------------