کے مشابہ ہوں تو حرام ۔ ایسے ہی ان اشیاء پر بقیہ احکام کا اجرا کیا جائے گا ۔ اگر دانشمند شخص تمباکو کے معاملہ پر غور کرے تو وہ اسے مباح بدعتوں سے ملحق پائے گا اگر اس پر کوئی برائی مرتب نہ ہو ،اور اس کی مذمت میں فقہاء حنابلہ کے نزدیک کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی ہے ‘‘ ۔تحریر کیا اس کو فقیر مرعی مقدسی حنبلی نے ‘‘۔
غایۃ المنتھیکے شارح مصطفی سیوطی حنبلی متوفی۱۲۴۳ھ حرمت کے قائلین کا رد کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’ وإنما کل عالم محقق لہ اطلاع علی أصول الدین و فروعہ إذا خلا من المیل مع الھوی النفسانی، وسئل الآن عن شربہ بعد اشتھارہ ومعرفۃ الناس بہ وبطلان دعویٰ المدلسین فیہ باضرارہ للعقل والبدن۔لا یجیز إلا باباحتہ لأن الأصل فی الأشیاء التی لا ضرر فیھا ولا نص تحریم ، الحل والاباحۃ حتی یرد الشرع بالتحریم لا الحظر ‘‘۱؎
ترجمہ : ’’ دین کے اصول و فروع سے واقف ہرمحقق عالم سے جب کہ وہ خواہشات نفسانی پر نہ چلتا ہو اس سے اس وقت تمباکو کے بارے میں سوال کیا جائے جو کہ مشہور ہوچکا ہے اور لوگ اس سے بخوبی واقف ہوچکے ہیں اور تمباکو میں عقل و بدن کو نقصان پہنچانے کا فریبیوں کا دعویٰ باطل ہوچکا ہے تو وہ اس کی اباحت ہی کا فتویٰ دے گا اس لیے کہ ان اشیاء میں جن میں ضرر نہیں ہے اور حرمت کی کوئی نص نہیں ہے اصل حلت و اباحت ہے تاآنکہ شریعت میں اسکی
------------------------------