اگر ان دونوں میں اختلاف ہو تو صاحب’’غایۃ المنتھی‘‘کی ترجیح کو پیش نظر رکھو ۔
شیخ مرعی کا درج ذیل ایک فتوی ’’ الاعلان بعدم تحریم الدخان ‘‘کے مؤلف نے نقل کیا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں :
’’ شربہ لیس بحرام لذاتہ حیث لم یترتب علیہ مفسدۃ بل ھو بمنزلۃ شرب دخان النار التی لم ینفخھا نافخ، وباتفاق لا قائل بتحریم ذلک ، ولا تقتضی قواعد الشریعۃ تحریم شرب الدخان المذکور ، ولا شبھۃ أنہ من البدع الحادثۃ التی تعرض علی قواعد الشریعۃ ، فان أشبھت المباح فمباحۃ أوالحرام فمحرمۃ إلی غیر ذلک من بقیۃ الأحکام ، إذا ما تدبر العاقل أمرالدخان وجدہ ملحقاً بالبدع المباحۃ إن لم یترتب علیہ مفسدۃ ، ولم یرد فی ذمہ حدیث عند فقہاء الحنابلۃ ، واللہ أعلم وکتبہ الفقیر مرعی المقدسی الحنبلی۔ ‘‘ ۱؎
ترجمہ : ’’ اس کا پینا فی نفسہ حرام نہیں ہے کیونکہ اس سے کوئی برائی یا خرابی نہیں ہوتی ، بلکہ وہ اس آگ کے دھوئیں کے پینے کے مانند ہے جس میں پھونک نہ ماری گئی ہو ، اور باتفاق اس دھوئیں کی حرمت کا کوئی قائل نہیں ہے اور شریعت کے قواعد سے مذکورہ تمباکو کے پینے کی حرمت لازم نہیں ہے اورا س میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وہ یعنی تمباکو بعد میں پیدا ہوئی نئی چیزوں میں سے ہے جنہیں شریعت کے قواعد پر پیش کیا جائے گا تو اگر وہ مباح کے مشابہ ہوں تو مباح،حرام
------------------------------