محمد بن جعفر کتانی ادریسی نے نقل کیا ہے کہ شیخ اجہوری نے آخری عمر میں اپنے اس قول سے رجوع کر لیا تھا ۔ دیکھیے الدخان ما بین القدیم والحدیث ص۱۹۲ـ
صاحب تہذیب الفردق محمد بن حسین نے اس سلسلے میں اپنی رائے کا اظہار یو ں کیا ہے:
’’وبالجملۃ فمن عافاہ اللہ من شربہ واستعمالہ بوجہ من الوجوہ لا ینبغی لہ أن یحمل الناس علی مختارہ فیدخل علیہم شغبًا فی أنفسہم وحیرۃ فی دینہم إذ من شرط التغییر أن یکون متفقاً علیہ،قال عیاض فی الاکمال مانصہ: لا ینبغی للآمر بالمعروف والناہی عن المنکر أن یحمل الناس علی مذھبہ وإنما یغیر ما اجتمع علی إحداثہ وإنکارہ ‘‘ ۱؎
ترجمہ : ’’ بہر حال جس کو اللہ تعالیٰ اس کے پینے یا کسی طرح استعمال کرنے سے محفوظ رکھے تو اسے یہ مناسب نہیں ہے کہ لوگوں کو اپنے اختیار کر دہ عمل پر ابھارے ، کیونکہ ایسا کرنے سے ان کو الجھن میں مبتلا کر دے گا، اور دین کے معاملے میں ان کو حیرت زدہ کر دے گا، کیونکہ کسی فعل وعمل کی تبدیلی کے لیے شرط ہے کہ وہ متفق علیہ ہو ، قاضی عیاض نے اکمال میں کہا ہے جس کی عبارت یوں ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کر نے والے کو اپنے مذہب ومسلک پر ابھارنا نہیں چاہیے ، بلکہ صرف اس امر کو بدلنے کی کوشش کرے جس کے بدعت اور منکر ہو نے پر علماء کا اتفاق ہو‘‘
شیخ احمد مالکی تمباکو کی اباحت میں فتویٰ دیتے ہوئے گویا ہیں :
------------------------------