الأعیان الحل لاسیما من استعملہا لتداوٍ ‘‘ ۱؎
ترجمہ: ’’ تمباکو کے بارے میں حلال و حرام میں سے کسی ایک کا قطعی حکم لگانے سے توقف کرنا ہی دین کے لیے زیادہ بہتر ہے اور قیامت کے دن محاسبہ کے خطرہ سے بچا جاسکتا ہے لیکن ہمارے ائمہ کے قواعد اس کی حرمت کے مقتضی ہیں ، اگر وہ نشہ تک پہونچا دے ،اور اگر عقل وبدن کو نقصان پہونچائے تو اس کی مضرت کی وجہ سے حرام ہے اور ایسے ہی اگر کوئی شخص تسلیم کرے کہ وہ اس میں کسی طرح کا فائدہ محسوس نہیں کرتا تو اس پر حرام ہو نا چاہیے استعمال کی حیثیت سے نہیں بلکہ مال کی بربادی کی وجہ سے اس لیے مال خواہ سمندر میں پھینک کر برباد کیاجائے یا آگ میں جلاکر یا کسی اور طریقے سے ، بربادی کی حرمت میں کوئی فرق نہیں ہے، اس کے سوا اس کا استعمال جائز ہے ، کیونکہ صحیح بات یہ ہے کہ اشیا ء میں اصل حلت ہے، خصوصاًجب کہ ان کا استعمال کوئی علاج کے طورپر کرے‘‘
شوافع ہی میں سے عبدالقادر بن یحی ٰ حسینی طبری لکھتے ہیں :
’’ ومن ذلک یعلم إباحۃ ھذا النبات إذ ھو فی حد ذاتہ طاہر غیر مسکر ، ولا مضر ولا مستقذر ثم تجری فیہ الأحکام کغیرہ ، فمن لم یحصل لہ ضرر باستعمالہ فی بدنہ أو عقلہ ، فہو جائز لہ ومن ضرہ حرم علیہ استعمالہ کمن یضر بہ استعمال العسل نحو الصفراوی ومن نفعہ فی دفع مضر کمرض ، وجب علیہ استعمالہ ، وثبوت
------------------------------