قول حرمت غیرمعتبر ہے ، کیونکہ اس کے لیے دلیل قطعی کا ہونا ضروری ہے ، اور حرمت کے قائل حضرات نے اس پر کوئی دلیل قطعی نہیں پیش کی ہے بلکہ ان کے تمام ظنی دلائل بھی مخدوش ہیں ۔ جیسا کہ ترویج الجنان کے مطالعہ سے واضح ہوگا ، اور قول اباحت بلاکراہت بھی مخدوش ہے ، البتہ قول ِ کراہت قابل اعتبار ہے ، یہ تمام گفتگو حقہ نوشی میں ہے ، رہا تمباکو کھانا اور اس کا ناک میں استعمال کرنا تواس کی کراہت پر بھی کوئی معتبر دلیل نہیں ‘‘۔
علمائے دیوبند تمباکوکے استعمال پرزیادہ سے زیادہ کراہت تنزیہی یا خلاف اولیٰ کا حکم لگاتے ہیں ۔
مولانا گنگوہیؒ فرماتے ہیں :
’’ حقہ پینا مباح ہے ، مگر اس کی بدبو سے مسجد میں آنا نادرست ہے ، فقط واللہ تعالیٰ اعلم ‘‘۔۱؎
دوسری جگہ فرماتے ہیں :
’’ حقہ پینا و تمباکو کھانا درست ہے ، مگر بدبو سے مسجد میں آنا حرام ‘‘ ۲؎
مولانا اشرف علی تھانویؒ بھی جواز کے قائل ہیں ۔ فرماتے ہیں :
’’ میرے نزدیک صاف بات یہ ہے کہ ایک دوا ہے ، جو حکم اور دواؤں کا ہے وہی اس کاہے ، یعنی جائز بلا کراہت ، مگراس میں بدبو ہے ، سومسجد میں جانے کے وقت منہ صاف کرے ‘‘ ۳؎
امداد الفتاوی میں آپ کا اس سلسلے میں فتوی بھی درج ہے ، اس میں فرماتے ہیں :
------------------------------