إلی الکراھۃ لوجود التشبہ بأھل النار والأشرار، واستعمال ما یعذب بہ أرباب الشقاق من الکفار والفجار ، و لایراثہ الریح الکریہ غالباً وإن لم یکن کلیاً ‘‘۔۱؎
ترجمہ : ’’ یہاں پر دو اختلاف ہیں پہلا حرمت و اباحت میں ، دوسرا کراہت اور عدم کراہت میں ، پہلے اختلاف میں اباحت کا ہونا حق ہے کسی شرعی دلیل سے حرمت نہیں ثابت کی جاسکتی ، دوسرے اختلاف میں حق ان کے ساتھ ہے جو کراہت کے قائل ہیں ۔ کیونکہ اس میں جہنمیوں اور برے لوگوں سے مشابہت پائی جاتی ہے ، نیز اس میں اس چیز کا استعمال ہے جس سے کافر اور بد کردار جیسے نافرمانوں کو عذاب دیا جائے گا ، اور اس وجہ سے بھی کہ اس کے استعمال سے عام طور سے بدبو پیدا ہوتی ہے ۔ اگرچہ ایسا کلی طورپر نہ ہو ‘‘
اپنے فتاویٰ میں مختلف فقہاء کے اقوال کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار یوں کیا ہے :
’’ وآنچہ کہ بعد تنقیح دلائل طرفین واضح شد این ست کہ قول حرمت لا یعبأ بہ ست ، چہ حرمت موقوف بردلیل قطعی برآں قائم نساختہ اند ، بلکہ جملہ دلائل ظنیہ شاں ہم مخدوش اند ، چنانچہ برمطالعہ ترویح الجنان مخفی نخواہد ماند ، وقول اباحت بلا کراہت ہم خالی از خدشات نیست ، البتہ قول کراہت قابل اعتبار است ، ایں ہمہ گفتگو درحقہ کشی ست ، فاماخوردن تمباکو واستعمال آں در بینی پس دلیلے معتبر برکراہتش ہم قائم نیست ‘‘ ۲؎
ترجمہ : ’’ طرفین کے دلائل کے تجزیہ کے بعد جوبات واضح ہوئی وہ یہ ہے کہ
------------------------------