بہر کیف بعض اہل علم نے عرب ملکوں میں تمباکو کی تاریخ بتانے کی جو کوشش کی ہے اس کی ایک جھلک پیش ہے ۔
صاحب الدر المختار اپنے شیخ نجم الدین بن بدر الدین الغزی الشافعی کا قول نقل کرتے ہیں :
’’ التتن الذی حدث وکان حدوثہ بدمشق فی سنۃ خمسۃ عشر بعد الألف ‘‘ ۱؎
ترجمہ : تتن یعنی تمباکو کا وجود دمشق میں ۱۰۱۵ھ میں ہوا(مطابق ۱۶۰۶ء و ۱۶۰۷ء )
ایک شامی شاعر نے اس کی تاریخ اور ساتھ ہی اس کا شرعی حکم اس طرح بتانے کی کوشش کی ہے :
سألونی عن الدخان وقالوا ھل لہ فی کتابنا ایماء
ترجمہ : ’’لوگوں نے مجھ سے تمباکو کے بارے میں سوال کیا اور کہا کہ ہماری کتاب میں کیا اس کا کوئی ذکر واشارہ ہے ‘‘؟
قلت ما فرّط الکتاب بشئ ثم أرّخت یوم تأتی السماء
۹۹۹ھـ
ترجمہ : ’’میں نے کہا کہ کتاب نے کسی چیز کو نہیں چھوڑا ہے ، پھر میں نے تاریخ نکالی یوم تاتی السماء ‘‘ حروف جمل کے حساب سے ۹۹۹ھ نکلتاہے ، نیز شاعر نے قرآن کریم کی آیت ’’ فارتقب یوم تأتی السماء بدخان مبین‘‘ ( الدخان :۱۰) کی طرف اشارہ کرکے اس کا شرعی حکم بتانے کی کوشش کی ہے ، یعنی تمباکو کا استعمال درست نہیں ہے ۔ گوکہ اصولاً مذکورہ آیت سے تمباکو کی حرمت ثابت کرنا صحیح نہیں ہے ۔
------------------------------