اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ قتل ناحق اسلام کی نگاہ میں کتنا بڑا ظلم ہے،اور کسی کی جان بچا لینا کتنا بڑا اجر کا کام ہے،آیت مذکورہ کے مطابق جب ایک شخص کو بلا گناہ قتل کرنے پرتمام لوگوں کے قتل کا گناہ ملے گا تو جو لوگ ہر سال ۴۲ لاکھ سے زیادہ افراد کے قتل کا سبب بنتے ہیں ،اور کروڑوں افراد کو مختلف بیماریوں کا شکار بناتے ہیں تو ان کا محاسبہ کتنا سخت ہوگا؟
اقامت دین ،اصلاح معاشرہ اور تبلیغ کے بینر تلے دین کی خدمت کرنے والوں سے میری گزارش ہے کہ اپنی مہم انجام دیتے وقت اس منکر کے ازالہ کی بھی فکر کریں ،اوراس دھوکے میں نہ پڑیں کہ اکابر و اصاغر بالفاظ دیگر اکثر لوگ اس کا استعمال کرتے ہیں لہٰذا تمباکو جائز ہوگا،تاریخ شاہد ہے کہ حق کا معیا ر کبھی بھی قلت وکثرت پر نہیں رہا ہے ، بلکہ اصول پسند اور اہل حق ہمیشہ کم ہی تعداد میں تھے،ارشاد باری تعالی ہے:
’’و إن تطع أکثر من فی الأرض یضلوک عن سبیل اللہ ان یتبعون إلا الظن و إن ھم إلا یخرصون ‘‘(الانعام: ۱۱۶)
ترجمہ: ’’ اور اگر تو کہنا مانے گا اکثر ان لوگوں کا جو دنیامیں ہیں تو تجھ کو بہکادیں گے،اللہ کی راہ سے، وہ سب تو چلتے ہیں اپنے خیال پر اور سب اٹکل ہی دوڑاتے ہیں ‘‘۔
تمباکو کی حقیقت اور اس کے نقصانات سے واقف ہونے کے بعد علماء کی معتدبہ تعداد نے تمباکونوشی سے منع کیا ہے ،صاحب مجالس الابرار ابو العباس احمد رومی حنفی نے اپنی کتاب کی تین مجلسوں تیسویں ، چھیانویں اور ستانویں مجلس میں حقہ نوشی سے پرہیز کی تلقین کی ہے،نور الایضاح اور اسکی شرح مراقی الفلاح کے مصنف حسن بن عمار شرنبلالی نے اس کی حرمت بتائی ہے۔ حکومت عثمانیہ کے مفتیٔ اعظم شیخ الاسلام محمد بن سعد الدین حنفی نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے،علامہ حصکفی نے الدر المنتقی میں اسے حرام قرار دیا ہے ریاض