کی اس عادت پر تو شدید گرفت فرماتے تھے۔
شیخ فاضل ، ادیب فرید اُستاذ نا المحترم مولانا محمد سورتی (نزھۃ الخواطر کے الفاظ میں ’’قلّما یدانیہ أحدٌ ‘‘ متوفی ۱۹۴۲ء ) تمباکو نوشی کی نہ تو اجازت دیتے تھے اور نہ ہی اسے درست سمجھتے تھے ۔
ناچیز نے اپنی ساٹھ سالہ معالجاتی زندگی میں استعمال تمباکو کے عادی لوگوں کی صحت کا انجام براہی دیکھا ہے ۔ اس کے دخان سے اوتار الصوت ، اغشیۃ الرئہ اور حُلقوم کے حصے متاثر ومتورّم ہوکر کھانسنے پر مجبور کرتے اورکھانسی کے ذریعہ اس اذیت کو دور کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن تمباکو نوشی کے باقی رہتے ہوئے علاج پذیر ہونا دشوار اورگاہے ناممکن ہوتاہے ، بالآخر آواز کی یہ ڈوریاں پھیپھڑے کی جھلّی اور حلقومی حصے زیادہ ہی بیمار ہوتے جاتے اور کبھی دمہ گاہے کینسر بناڈالتے ہیں ۔
۲۴گھنٹے ۲۱۶۰۰ سانس لینے والے انسان کی سانس کی یہ تعداد تمباکو پینے والوں میں کم ہوتی جاتی ہے اور اس کی زندگی کم کرتی رہتی ہے ، یہ کہنا بے جا نہیں کہ تمباکو کھانے پینے والا اپنے جسم کو روگوں کا پٹارا بنالیتاہے یہ سب وہ طبّی معلوماتی اور تجرباتی امور ہیں جنہیں طبّی وعلاجی دنیا نے جانا اور مانا ہے ۔ (والامر بید اللہ تعالی )
ادھر چند سال سے گُٹکا کھانے والوں کا شُغل بھی سامنے ہے ، گُٹکا کھانے والے لاغر اندام ، بدحال ، قوت عمل کا فقدان ، بغیر گُٹکا کھائے کچھ نہ کرسکنے والے ، اعضاء کے اضمحلال کا شکار ، چہرے سے کریات حمراء کی کمی اور کریات بیضاء کی کثرت کی آئینہ دار ہوتی ہے، گُٹکا اس درجہ عام ہوا ہے کہ امیر و غریب ، تاجر ومزدور تک اس کے شکار بنتے جارہے ہیں ’’ لاتلقوا بأیدیکم الی التھلکۃ ‘‘ کو نہ ماننے کا جو حشر ہونا چاہیے وہی حشر گُٹکا کھانے والوں کا ہورہا ہے ۔