چھوڑ کر دار الإیمان (یعنی مدینہ) آئے ،اور چھوڑا احباب اور دوستوں کو اور بھائیوں اور پڑوسیوں کو۔
اور حضرت عمر رضى الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے بعد خلیفہ کو مہاجرین اولین کے بارے میں وصیت کرتاہوں کہ ان کے حقوق جانے، اور ان کا پورا پورا اکرام کرے، اور انصارِ مدینہ کے بارے میں وصیت کرتاہوں کہ ان کے ساتھ نیکی کا معاملہ کرے۔تفسیر ابن کثیر (ج۱ /ص۴۴۱)
اور مہاجرین کے فضائل کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:{ وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} [النساء: 100]
ترجمہ: او رجو شخص اللہ کی راہ میں وطن چھوڑے وہ زمین میں جانے کی بہت سی جگہ پائے گا،اور اسے بہت کشادگی ملے گی ، اور جو شخص اپنے گھرسے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف ہجرت کرنے کی نیت سے نکل کھڑا ہوا ، پھر اس کو موت آجائے تو یقینی طور پر اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ثابت ہوگیا ، اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے ۔اور سورة الحشر میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:{لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ} [الحشر: 8]
ترجمہ: فقراء مہاجرین کے لئے ہیں جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکالے گئے ، وہ اللہ کا فضل اور رضامندی طلب کرتے ہیں،اور اللہ کی اور اسکے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہ وہ ہیں جو سچے ہیں۔