حضرت عکرمہ رحمہُ اللہ تعالى نے ولا يهتدون سبيلا کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مراد ” طریقاً إلیٰ المدینة “ہے یعنی مدینہ منورہ کا راستہ۔ (تفسير القرآن للحافظ عبد الرزاق الصنعاني ج 2 /ص۱۲۴)
اور معالم التنزیل میں امام بغوی نے فتهاجروا فيهاکی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یعنی‘‘فتهاجروا إلیٰ المدینة’’(۲/۲۷۳) کہ تم مدینہ کی طرف ہجرت کرتے۔مطلب یہ ہوا کہ جن لوگوں نے قدرت رکھتے ہوئے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہ کی ان کے لئے سخت وعید ہے،کیونکہ یہ لوگ وہاں رہتے ہوئے اپنے دین کی پوری طرح حفاظت نہیں کرسکتے تھے ، اس لئے ان پر ہجرت کرنا فرض تھا اور جو حضرات مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے ان پر ہجرت نہ کرنے پر کوئی مؤاخذہ نہیں تھا۔
حافظ ابن حجر رحمہُ اللہ تعالى نے فتح الباری میں لکھاہے کہ جب نبی اکرم ﷺ (مدینہ ہجرت فرماکر) مدینہ منورہ میں استقرار پذیر ہوگئے، اور ان کی طرف جو مسلمان ہجرت کرسکتے تھے انہوں نے بھی ہجرت کرلی تو اس وقت صرف مدینہ منورہ ہی کی طرف ہجرت کرناخاص تھا، اور مکہ مکرمہ کے فتح ہو نے تک یہی حکم تھا، یعنی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنا فرض تھا، فتحِ مکہ کے بعد مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے کی فرضیت منسوخ ہوگئی، جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے نبیٴ اکرم ﷺ سے روایت کی ہے: (( لا هجرة بعد الفتح ولٰکن جهادٌ ونیةٌ وإذا استنفرتم فانفروا))
البتہ یہ حکم ابھی بھی باقی ہے کہ (جولوگ دنیا میں کہیں بھی کسی )دار الکفر میں