ہوگئی تھیں۔
بچو! حضرت یونس ؑنے مچھلی کے پیٹ میں جودعا کی یعنی :
{لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظٰلِمِیْنَ} 1
یہ بڑی کارآمد ہے، اب بھی جب کوئی مصیبت یا آفت نازل ہوتی ہے تو اس کو پڑھا جاتا ہے، اللہ پاک اس کی برکت سے آفات کودور کردتیا ہے۔
حضرت دائود ؑ
بچو! حضرت دائود ؑبھی بنی اسرائیل کے بڑے نبی گزرے ہیں۔ آپ کاذکر قرآن پاک میں کئی جگہ آیا ہے۔ سورۂ ص میں خصوصیت سے نہایت تفصیل سے ملتا ہے، یہ سورت پارہ نمبر ۲۳ میں ہے۔ آپ پر آسمانی کتاب ’’زبور‘‘ نازل ہوئی تھی۔
حضرت موسیٰ ؑ کے انتقال کے کافی عرصہ بعد بنی اسرائیل کے سرداروں نے اس وقت کے نبی سے کہا کہ ہم کو ایک بادشاہ کی ضرورت ہے جس کی سرداری میں ہم اللہ کے دشمنوں سے جنگ کریں، اللہ کے نبی ان کی حالت کو خوب جانتے تھے، اس لیے پہلے تو انھوں نے انکار کردیا کہ یہ لوگ بزدل ہیں، جنگ وغیرہ کچھ نہیں کریں گے۔ مگر جب قوم اور سرداروں کااصرار بڑھا اور وہ نہیں مانے تو اللہ کے نبی نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے طالوت کوبادشاہ مقرر کیا ہے۔ طالوت ایک غریب آدمی تھے۔ سردار اور امیر لوگ طالوت کانام سنتے ہی ناراض ہوگئے کہ سرداری اور بادشاہت تو ہمارا حق تھا، یہ غریب آدمی کو کیسے مل گئی۔
بچو!حضرت طالوت بڑے عالم، جنگ کے ماہر، بڑے بہادر اور طاقتور آدمی تھے، اس لیے اللہ نے ان کو بادشاہ مقرر کیا تھا۔ اللہ کے نزدیک تو امیر وغریب سب برابر ہیں، اس کے نزدیک وہی اچھا ہے جو نیک ہو۔
لوگوں کی تسلی کے لیے اس وقت کے نبی نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت طالوت کو بادشاہ بنانے کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جس صندوق میں حضرت موسیٰ ؑ اور حضر ت ہارون ؑ کی یاد گار ہے اسے فرشتے اُٹھا کر تمہارے پاس لے آئیں گے۔ چناںچہ فرشتے وہ صندوق ان کی قوم کے پاس لے آئے۔ آخر انھوں نے حضرت طالوت کو اپنا بادشاہ مان لیا۔
آخر جب حضرت طالوت اپنی فوج لے کر روانہ ہونے لگے، تو انھوں نے اپنی قوم کی ایک آزمایش کی کہ اگر کوئی مصیبت آئی تو یہ لوگ اس کامقابلہ کریں گے یابھاگ جائیں گے؟ انھوں نے کہا کہ آگے چل کر پانی کی ایک نہر آئے گی، جس نے