۱۔ مسلمانوں کے بادشاہ کے لیے مال دار ہونا ضروری نہیں، بلکہ اس کو عالم ، طاقتور، بہادر اور لڑائی کے طریقے جاننے والا ہونا چاہیے، جیسے حضرت طالوت غریب آدمی تھی، مگر یہ سب خوبیاں ان میں موجود تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کوبادشاہ بنایا۔
۲۔ دشمن سے لڑائی جیتنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ تعداد زیادہ ہو، بلکہ یہ ضروری ہے کہ ہمارا اللہ تعالیٰ پر کامل یقین ہو کہ وہ ہماری مدد کرے گا۔ ہم موت سے نہ ڈریں اور اپنے امیر کی اطاعت کریں۔
۳۔ ہمارے پاس کتنی ہی دولت آجائے، یہاں تک کہ چرند، پرند، پہاڑ، لوہا سب ہمارے تابع ہوجائیں۔ مگر ہمیں اللہ کو نہیں بھولنا چاہیے۔ دل کی خواہش پر نہ چلنا چاہیے۔ سب کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے۔
حضرت لقمان حکیم
بچو! حضرت لقمان کانام آپ نے سناہوگا، اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی حکمت ودانائی عطا کی تھی کہ ان کانام آج تک زندہ ہے۔اور قرآن پاک میں بھی ایک سورت لقمان کے نام سے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا :
{وَلَقَدْ آتَیْْنَا لُقْمَانَ الْحِکْمَۃَ اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ ط وَمَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہِ ج وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ}1
اور ہم نے لقمان کو دانائی عطا کی تھی، ( اور ان سے کہا تھا) کہ اللہ کا شکر کرتے رہو، اور جوکوئی اللہ کاشکر ادا کرتا ہے وہ خود اپنے فائدے کے لیے شکر کرتا ہے، اگر کوئی ناشکری کرے تو اللہ بڑا بے نیاز ہے، بذاتِ خود قابل تعریف ہے۔
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو چند نصیحتیں کیں، جن کااس سورت میں ذکر ہے،وہ نصیحتیں یہ ہیں:
۱۔ اے بیٹے! اللہ تعالیٰ کاشریک کسی کو نہ بنانا کہ یہ بڑی ناانصافی ہے۔
۲۔ ماں باپ کاکہنا ماننا کہ تیری ماں نے تجھ کو پیٹ میں رکھا اور اس کے لیے کتنی تکلیفیں اٹھائیں، پھر دو برس تک دودھ پلایا۔ ہاں اگر تمہارے ماں باپ یہ کہیں کہ اللہ کاکسی کو شریک بنائو تو پھر ان کاکہنا نہ ماننا ،لیکن ان کی خدمت پھر بھی کرتے رہنا۔
۳۔ اے میرے بیٹے!اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو اور وہ کسی چٹان میں ہویا آسمان یا زمین میں کہیں بھی ہوگی اللہ اس کو قیامت کے روز ضرور حاضر کردے گا۔
۴۔ اے میرے بیٹے!نماز پڑھا کر اور بھلی بات سکھا اور برائی سے منع کر، اور جو تجھ پر مصیبت پڑے اس پر صبر کر، بے