ہمارے پیارے نبیﷺنے کافروں کی اس وعدہ خلافی اور عہد کو توڑنے پر بارہ ہزار مسلمانوں کالشکر لے کر مکہ پر لشکر کشی کی، کافروں نے مقابلہ توکیا ،مگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غلبہ عطا فرمایا۔ بہت کفار مارے گئے اور بڑے بڑے سردار شہر چھوڑ کر بھاگ گئے اور جوحاضر ہوئے آپﷺنے ان کی جان بخشی فرمائی۔ خانہ کعبہ کے بتوں کو آپ نے خود توڑا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کو سورۂ بنی اسرائیل میں اس طرح بیان فرمایا ہے:
{وُقُلْ رَّبِّ اَدْ خِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْ قٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰناً نَّصِیْرًاo وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلَ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا۔}1
اور یہ دعا کرو کہ یارب! مجھے جہاں داخل فرما اچھائی کے ساتھ داخل فرما، اور جہاں سے نکال اچھائی کے ساتھ نکال ، اور مجھے خاص اپنے پاس سے ایسا اقتدار عطا فرما جس کے ساتھ(تیری) مدد ہو۔اور کہو کہ حق آن پہنچا ، اور باطل مٹ گیا، اور یقینا باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے۔
مکہ معظمہ کے باہر کچھ بڑے بڑے بت تھے، ان کو بھی توڑنے کے لیے صحابہ کو بھیجا گیا۔
جنگ ِ حنین سنہ۸ہجری:
بچو! فتح مکہ کے بعد دوسری چھوٹی چھوٹی جنگیں ہوئیں، پھر ایک بڑی جنگ حنین کے نام سے ہوئی ، حنین ایک مقام ہے مکہ اور طائف کے درمیان، یہاں کافروں کے کچھ قبیلوں سے فتحِ مکہ کے دو ہفتہ بعد لڑائی ہوئی، مسلمان بارہ ہزار تھے اور مشرکین چار ہزار، بعض مسلمان اپنا مجمع دیکھ کر ایسی باتیں کرنے لگے کہ اس سے شیخی سی معلوم ہوتی تھی، مثلاً: ہم آج کسی طرح نہیں ہار سکتے وغیرہ، لڑائی شروع ہوئی اور پہلے مسلمانوں کو فتح ہوئی ، بعض مسلمان مالِ غنیمت جمع کرنے لگے، اس وقت موقع پاکر کافر ٹوٹ پڑے، وہ بڑے تیرانداز تھے، مسلمانوں پر تیر برسانے شروع کردیے،مسلمان گھبراگئے اور اس گھبراہٹ میں مسلمانوں کے پائوں اکھڑ گئے، صرف رسول اللہ ﷺ مع چند صحابہ کے میدان میں رہ گئے۔ آپ نے حضرت عباسؓسے مسلمانوں کو آواز دلوائی، پھر سب لوٹ کر دوبارہ جمع ہوئے اور کافروں سے مقابلہ کیا، آسمانوں سے فرشتوں کی مدد آئی۔ کافر بھاگے اور بہت سے قتل ہوئے۔ اس طرح شکست اللہ کی مدد سے دوباہ فتح میں تبدیل ہوگئی، پھر ان کافروں میں سے بہت سے آپ کی خدمت میں آکر مسلمان ہوئے، سورۂ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کو اس طرح بیان کیا ہے اور مسلمانوں کونصیحت کی ہے:
{لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍ لا وَّیَوْمَ حُنَیْْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنکُمْ شَیْْئاً وَضَاقَتْ عَلَیْْکُمُ الاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ}1
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بہت سے مقامات پر مدد کی ہے، اور (خاص طور پر) حنین کے دن جب تمہاری تعداد کی کثرت نے تمہیں مگن کردیا تھا، مگر وہ کثرت تعداد تمہارے کچھ کام نہ آئی، اور زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی، پھر تم نے