کماتے تھے۔ہر وقت یادِ الہٰی میں مشغول رہتے، راتوں کو بہت کم سوتے۔ دن میں اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتے، بس یہی ان کی زندگی تھی۔
عبادتِ الہٰی اور خدمت ِ خلق
حضرت زکریا ؑ
بچو! حضرت زکریا ؑبھی بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے، آپ کے زمانہ میں بنی اسرائیل کی حالت بہت خراب تھی، مگر پھر بھی ان میں نیک لوگ موجود تھے اور ایسی عورتیں بھی تھیں جو اولاد کو دین کے لیے وقف کردیتی تھیں اور ان سے دنیا کاکام نہ لیاجاتا تھا۔
حضرت زکریا ؑنے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور کہا کہ اے اللہ!میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں، سر بڑھاپے سے سفید ہوگیا ہے، میں تجھ سے دعا کر کے کبھی ناکام نہیں رہا، میری بیوی بانجھ ہے اور مجھے اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈر ہے۔ پس تو مجھے ایک وارث عطا کر جو میرا اور یعقوب کی اولاد کاوارث ہو۔ اس کوہر دلعزیز بنا اور مجھے اکیلا نہ چھوڑ۔
ایک روز حضرت زکریا ؑ نمازپڑھ رہے تھے تو فرشتوں نے انھیں آواز دی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں یحییٰ کے پیدا ہونے کی خوش خبری دیتا ہے، یہ اللہ کے حکم کی تصدیق کرے گا۔ لوگوں کاپیشوا پاک دامن اور نیک بخت نبی ہوگا۔ آپ نے یہ خوش خبری سنی تو تعجب سے کہنے لگے کہ اس عمر میں میرے یہاں لڑکا کیسے پیدا ہوگا جب کہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے ؟ جواب ملا: ہمارے لیے تمام باتیں آسان ہیں۔ حضرت زکریا ؑنے عرض کیا کہ میرے اطمینان کے لیے کوئی نشانی مقرر کر دیجیے، حکم ہوا: تمہاری نشانی یہ ہوگی کہ تم لوگوں سے تین دن تک اشارے کے سوابات نہ کرسکوگے۔ اور تم اللہ کو خوب یاد کرتے رہواور اس کی بزرگی صبح وشام بیان کرتے رہو۔ چناںچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بیوی کو اچھا کردیا، یعنی بچہ جننے کے قابل کر دیااور یحییٰ ؑ پیدا ہوگئے، حضرت یحییٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ کاحکم تھا کہ وہ تورات پر خوب اچھی طرح عمل کریں۔ ابھی حضرت یحییٰ بچے ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دانائی بخشی۔ رحم دلی اورپاکیز گی عطا کی۔ وہ پرہیز گار تھے اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے تھے۔ وہ سرکش اور نافرمان نہ تھے۔
بچو! حضرت یحییٰ ؑکے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں اعلان فرمایا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ
’’جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن وہ مرے اور جس روز وہ زندہ ہو کر اٹھائے جائیں گے ان پر اللہ کی سلامتی اور امان ہو‘‘۔1