فرعون اس بات کو سن کرلاجواب ہوا اور بات بدل کر پوچھنے لگا:تمہارا رب کون ہے؟ آپ نے فرمایا:جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا، جو نہ صرف تمہارا بلکہ تمہارے باپ دادا کاپالنے والا ہے، فرعون نے دربار یوں سے کہا کہ یہ تو کوئی دیوانہ ہے جو بہکی بہکی باتیں کررہا ہے۔
حضرت موسیٰ ؑکاجادو گروں سے مقابلہ اور ان کامسلمان ہونا:
آخر جب وہ ہر طرف سے تنگ ہوگیا تو اس نے تمام ملک میں ڈھنڈورا پٹوایا، بڑے بڑے جادو گروں کوبلوایا، چاروں طرف ہر کارے دوڑ ادیے اور عید کے دن سب کے سب میدان میں جمع ہوئے، اب ایک طرف فرعون تھا، اس کے درباری شاہی فوجیں اور اس کی قوم اور دوسری طرف غریب اور بے کس حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ تھے، اللہ کے سوا مدد دینے والاکوئی نہ تھا۔
جادوگروں نے نظر بندی کر کے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈال دیں اور دیکھنے والوں کوایسا معلوم ہوا کہ وہ سب دوڑرہی ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑپہلے توڈر گئے، مگر اللہ تعالیٰ نے کہا: تونہ ڈر، تیری ہی فتح ہوگی، تیرے داہنے ہاتھ میں جولاٹھی ہے اسے ڈال دے ، وہ سانپ بن کر ان سب کو نگل جائے گا۔ جوکچھ انھوں نے کیا ہے یہ صرف جادو ہے، جہاں اللہ کاحکم آجائے وہاں جادو کام نہیں کرسکتا۔ اب جو انھوں نے اپنی لاٹھی ڈالی تو وہ اَژدھابن کر سب کو نگل گیا۔ جادو گروں نے جو دیکھا تو وہ سب کے سب سجدے میں گر پڑے اور کہا کہ ہم حضرت موسیٰ ؑاور حضرت ہارون ؑ کے رب پر ایمان لے آئے۔ فرعون نے غصہ میں آکر کہا :تم نے تو اس کومان بھی لیا ہے، ابھی تو میں نے حکم بھی نہیں دیاتھا، بے شک یہی موسیٰ تمہارا بڑا ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے۔ تم سب نے مل کر یہ شرارت کی ہے، تم سب کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پائوں کاٹ ڈالوں گا اور پھر سب کو سولی پر چڑھا دوں گا۔
مگر ان جادو گروں پر دھمکی کاکوئی اثر نہ ہوا۔ انھوں نے کہا :ہمیں کچھ پروا نہیں۔ ہمیں اپنے رب کے پاس جانا ہے، تیراز ور تو بس اسی زندگی تک چل سکتا ہے، جو کچھ تجھے کرنا ہے کرلے۔ اے ہمارے پالنے والے! ہم تجھ پر ایمان لے آئے ہیں۔ جب ہم پر یہ مصیبتیں آئیں تو ہمیں صبر دینا اور دنیا سے مسلمان ہی اُٹھانا۔
فرعون نے ان جادو گروں کو جومسلمان ہوگئے تھے سولی پر چڑھا دیا اور ان کے ہاتھ پیر کٹوادیے۔ ان تکلیفوں کے ہوتے ہوئے بھی وہ ایمان پر قائم رہے۔ اس واقعہ کے بعد بھی فرعون کی قوم اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لائی اور اپنے غرور میں رہی۔ اللہ تعالیٰ بڑا مہربان ہے۔ وہ بار بار اپنے بندوں کو سیدھی راہ دکھاتا ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرعون اور اس کی قوم کو ڈرانے کے لیے طرح طرح کے عذاب بھیجتا رہا۔ کبھی لوگوں کی نصیحت کے لیے قحط ڈالا اور پیداوار کی کمی کردی۔مگر جب کبھی ان پر کوئی آفت آتی تو یہی کہتے کہ حضرت موسیٰ ؑاور ان کے ساتھیوں کی نحوست ہے، پھر اور زیادہ سمجھا نے کے لیے