چلاتے تھے۔ دریا کے اس طرف کابادشاہ زبردستی کشتیاں چھین لیا کرتا تھا۔ میں نے اس میں سوراخ کردیا کہ عیب دار ہونے کی وجہ سے اسے کوئی نہ لے گا۔
رہالڑکا تو اس کے ماں باپ ایمان دار تھے، مگر یہ سرکش اور کافر تھا۔ مجھے اس بات کاڈر تھا کہ یہ لڑکا ان دونوں کو سرکشی اور کفر میں نہ پھنسا دے، میںنے قتل کردیا کہ اللہ انھیں اس کے بدلے مہربان اور نیک بیٹا عطا کرے۔
دیوار شہر کے دویتیم بچوں کی تھی جس کے نیچے ان کی دولت دفن تھی، ان کاباپ نیک تھا۔ اگر دیوار گرجاتی تو دوسرے لوگ ان کی دولت پر قبضہ کرلیتے۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ تھی کہ دونوں جوان ہو کر اپنا خزانہ نکال سکیں۔
یہ جوکچھ ہوا تمہارے رب کی رحمت کانتیجہ تھا۔ میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کیا، یہی وہ باتیں تھیں جن پر آپ صبر نہ کرسکے۔
حضرت موسیٰ ؑکے واقعے سے ملنے والے سبق:
اس کے بعد حضرت موسیٰ ؑایک عرصہ تک بنی اسرائیل کو ہدایت کرتے رہے۔ برائیوں سے منع کرتے رہے، اچھائیوں کی تاکید کرتے رہے اور آخر کار اپنے اللہ پاک سے جاملے جس نے ان کو نبی بناکر بھیجا تھا۔
بچو!جو قوم اللہ کی نافرمانی کرتی ہے، اس کوتھوڑا تھوڑا عذاب دے کر خبردار کیاجاتا ہے، وہ اگر پھر بھی نافرمانی کرتی رہتی ہے تو اس کوکچھ عرصہ کے لیے مزید ڈھیل دے دی جاتی ہے، تاکہ وہ بالکل غفلت میں پڑجائے ، پھر ایک دم اللہ کاسخت عذاب آکر اس کو بالکل ختم کردیتا ہے۔
فرعون خود کوخدا کہلواتاتھا۔ بنی سرائیل پر ظلم کرتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اسی کے گھر میں حضرت موسیٰ ؑ کی پرورش کروائی۔ پھر حضرت موسیٰ ؑکے ذریعے سے اس کو اور اس کی قوم کو ختم کرادیا۔
دوسرا سبق ہم کو یہ ملتا ہے کہ جوقوم بہت عرصہ تک کسی کی غلامی میں رہتی ہے اس کی رگ رگ میں غلامی بس جاتی ہے، غیرت اور بہادری ختم ہوجاتی ہے اور اس کاجی چاہتا ہے کہ بار بار وہی غلامی کی باتیں کرے جس طرح بنی اسرائیلنے آزاد ہونے کے بعد کیں۔
تیسرا سبق ہم کو حضرت خضر ؑکے قصے سے یہ ملتا ہے کہ اللہ اپنے نیک بندوں کی حفاظت ان کی زندگی میں بھی کرتا ہے اور ان کے مرنے کے بعد ان کی اولاد کی حفاظت بھی کرتارہتا ہے۔
حضرت ایوب ؑ