طرف سے اپنے برے کاموں کاایک امتحان سمجھنا چاہیے اور اللہ کے پیارے بندے حضرت ایوب ؑکی طرح صبر کرنا چاہیے اور اس حال میں بھی اللہ تعالیٰ کاذکر اوراس کی تعریف کرنی چاہیے کہ یہ بڑے انسانوں اور بڑے سچے بندوں کی نشانی ہے، اللہ پاک ہم سب کو صبر وثبات اور ہر حال میں اپنے مالک ِ حقیقی کی تعریف کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
حضرت یونس ؑ
بچو! قرآن پاک میں آپ کاذکر بار بار آیا ہے۔ سورۂ انعام، سورۂ یونس، سورۂ صافات اور سورۂ انبیاء میں آپ کاذکر ِمبارک ملتا ہے۔
ملک عراق کے شہر نینوا میں پیدا ہوئے تھے، جس شہر کی طرف آپ کو نبی بنا کر بھیجا گیا تھا ،اس کی آبادی ایک لاکھ یااس سے کچھ زیادہ تھی، آپ بھی لوگوں کو بت پرستی سے منع کرتے اور اچھائیوںکی ہدایت کرتے، اس بات سے آپ کی قوم آپ کی دشمن ہوگئی۔ آخر قوم کی بار بار مخالفت سے تنگ آکر آپ نے فرمایا کہ اب اللہ کاعذاب تم پر آکر رہے گا اور یہ کہہ کربستی سے باہر نکل گئے اور اللہ کے عذاب کا انتظار کرنے لگے، ان کے جانے کے بعد بستی والوں نے مشورہ کیا کہ حضرت یونس ؑ عذاب کی پیشین گوئی کر کے گئے ہیں اور وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے ،اس لیے اس معاملے میں غور کیا جائے، ان کے مشورہ میں یہ طے ہوا کہ اگر جمعرات کو حضرت یونس ؑ بستی سے باہر چلے گئے تو سمجھو کہ صبح ہم پر یقینا عذاب آئے گا۔ چناںچہ انھوں نے دیکھا کہ حضرت یونس ؑ رات کو بستی سے باہر نکل گئے اور صبح کے وقت عذاب کے آثار ظاہر ہونے لگے تو ان کو یقین ہوگیا کہ اب ہم ہلاک ہونے والے ہیں یہ دیکھ کر حضرت یونس ؑکو تلاش کیا کہ ان کے ہاتھ پر ایمان لے آئیں۔ مگر جب ان کو نہ پایا تو خود ہی اخلاص نیت کے ساتھ توبہ واستغفار میں لگ گئے، بستی سے باہر ایک میدان میں نکل آئے، عورتیں ، بچے اور جانور سب اس میدان میںجمع کردیے گئے اور ٹاٹ کے کپڑے پہن کر عجز وزاری کے ساتھ عذاب سے پناہ مانگنے میں اس طرح مشغول ہوئے کہ پورا میدان آہ وبکا سے گونجنے لگا، اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی اور ان سے عذاب ہٹادیا۔
ادھر حضرت یونس ؑ بستی سے باہر اس انتظار میں تھے کہ اب اس قوم پر عذاب نازل ہوگا، مگر عذاب نازل نہ ہوا، قوم کے توبہ واستغفار کا ان کو علم نہ تھا، اس لیے ان کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ اب اگر میں بستی میںگیا تو مجھے جھوٹا قرار دے کر قتل کر