سے بچائے اور اپنی اور اپنے رسولﷺکی اطاعت نصیب کرے۔ آمین۔
حضرت ابراہیم ؑ
بچو! حضرت ابراہیم ؑکاذکر قرآن پاک میں بہت زیادہ آیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ بہت ہی بڑے نبی گزرے ہیں۔ دنیا میں جب بت پرستی کازور ہوگیا اور یہ حال ہوگیا کہ لوگ خود بتوں کو بناتے اور خود ان کی پوجا کرتے، حتی کہ حضرت ابراہیم ؑکے والد بھی بُت بناتے تھے اور بتوں کو خدا سمجھتے تھے، تو تب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑکو نبی بنا کر دنیا میں بھیجا۔حضرت ابراہیم ؑابھی بچے ہی تھے، مگر جب وہ دیکھتے کہ میرے والد اور دوسرے لوگ خود ہی مٹی اور لکڑی سے بتوں کو بناتے اور پھر ان کو خدا سمجھنے لگتے ہیں تو وہ حیران ہوتے کہ کس قدر بے وقوف ہیں یہ سب لوگ کہ ان بے جان مورتیوں کو خدا سمجھ رہے ہیں۔
حضرت ابراہیم ؑکابتوں کوتوڑنا:
حضرت ابراہیم ؑا ن لوگوں سے کہتے کہ تم لوگ کیوں ان بتوں کو پوجتے ہو؟ یہ تمہیں نہ کوئی نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان، مگر وہ جواب دیتے: جو ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں وہی ہم کررہے ہیں۔
بچو! ایک روز ان لوگوں کاشہر سے باہر کوئی بڑا میلہ ہوا، یہ سب لوگ اس میلے میں شریک ہونے کے لیے شہر سے باہر چلے گئے۔ حضرت ابراہیم ؑا س میلے میں نہ گئے بلکہ ان کے پیچھے حضرت ابراہیم ؑ ملک کے بڑے بت خانے میں گئے اور وہاں کے سب بتوں کو توڑ ڈالا، سوائے ایک سب سے بڑے بت کے اور کلہاڑی جس سے سب بتوں کوتوڑاتھا وہ اس بڑے بت کے کاندھے پر رکھ دی، جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ سب اسی نے توڑے ہیں۔
لوگ جب واپس آئے اور انھوں نے بتوں کی یہ دَرْگت(حالت) دیکھی کہ کسی کا سر نہیں ہے تو کسی کاپیر نہیں، تو بہت غصہ ہوئے کہ یہ حرکت کس نے کی ہے؟سب نے شبہ حضرت ابراہیم ؑ پر کیا کہ وہی بتوں کو بُرا کہتے تھے اور میلے میں بھی نہیں گئے تھے، آخر ان کو بلا کر پوچھا کہ یہ بت کس نے توڑے ہیں؟حضرت ابراہیم ؑنے جواب دیا کہ مجھ سے پوچھنے کی بجائے اپنے خدائوں سے کیوں نہیں پوچھتے جن کی تم عبادت کرتے ہو کہ ان کو کس نے توڑا ہے؟ وہ خود بتادیں گے۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ آپ کومعلوم ہے کہ یہ بول نہیں سکتے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ پھر تم ایسے بیکار خدائوں کی پوجا کیوں کرتے ہو؟ حضرت ابراہیم ؑ نے پھر کہا کہ دیکھو! کلہاڑی بڑے بت کے کاندھے پر رکھی ہوئی ہے، یہ کام اسی کامعلوم ہوتا ہے، اس سے پوچھو۔ یہ لوگ بہت ناراض ہوئے اور ان کے باپ ’’آزر‘‘ سے شکایت کی کہ تمہارا بیٹا ایسی حرکت کررہا