میں تمہارا سگا بھائی ہوں اور میں تم کو اپنے پاس رکھوں گا، آخر جب ان سب کا سامان تیار ہوگیا تو حضرت یوسف ؑ نے اپنا ایک برتن اپنے سگے بھائی کے سامان میں چپکے سے رکھوادیا اور اعلان ہواکہ شاہی کٹوراگم ہوگیا ہے، جس نے لیا ہو وہ دے دے اس کو ایک اونٹ غلہ انعام دیاجائے گا۔ سب بھائیوں نے انکار کیا، بادشاہ کے آدمیوں نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہوئے تو اس کی کیاسزا ہونی چاہیے؟ تو یوسف ؑ کیبھائیوں نے کہا:جس کے سامان میں نکلے اس کو روک رکھیں، اس کی یہی سزا ہے، ہمارے ملک کا بھی یہی قانون ہے۔ پھر تمام بھائیوں کی تلاشی لی گئی، آخر بنیامین کے سامان میں سے وہ کٹورا نکلا، اس طرح حضرت یوسف ؑ نے اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک لیا۔
بھائیوں نے دیکھا تو کہنے لگے کہ اس کابھائی بھی چورتھا۔ حضرت یوسف ؑنے سب کچھ سنا اورخاموش رہے۔ اب سب بھائیوں نے مل کر حضرت یوسف ؑسے درخواست کی کہ اس کاباپ بہت بوڑھا ہے، اس پررحم کھاکر اسے چھوڑ دیجیے اور اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو پکڑ لیجیے۔ حضرت یوسف ؑنے فرمایا کہ اللہ کی پناہ! جوچور کوچھوڑ کر بے گناہ کو پکڑوں۔ جب یہ لوگ بالکل مایوس ہوگئے تو سب نے مل کر مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ تو سب سے بڑے بھائی نے کہا: تم نے اللہ کی قسم کھا کر اپنے باپ کو یقین دلایا تھا کہ اس کوضرور واپس لائو گے۔ پھر یوسف کے ساتھ ہم نے جو حرکتیں کیں وہ تم سے چھپی نہیں، اس لیے میری تو ہمت نہیں کہ باپ کو منہ دکھائوں، ہاں خود حاضر ہونے کی اجازت دیں یا اللہ کوئی دوسری صورت پیدا کردے تو اور بات ہے۔ تم لوگ جائو اور جوکچھ ہوا ٹھیک ٹھیک اپنے باپ سے بیان کردو کہ اگر وہ اپنی تسلی کرنا چاہیں تو اس گائوں کے لوگوں سے پوچھ لیں جہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے اور اس قافلہ سے معلوم کریں جس کے ساتھ ہم آئے ہیں۔
اس مشورہ کے بعد یہ لوگ اپنے گھر پہنچے اور والد صاحب کو تمام قصہ سنایا، انھوں نے سنتے ہی فرمایا:تمہارے دلوں نے یہ بات گھڑلی ہے ، بہر حال صبر اچھا ہے، اُمید ہے کہ اللہ ہم سب کو ایک جگہ جمع کردے گا، وہی خوب جانتا ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ اور ان سے رخ دوسری طرف کرلیا۔ حضرت یوسف ؑکے غم سے ان کی آنکھیں سفید ہوگئی تھیں۔ یوسف کے بھائیوں نے کہا: اباجان! آپ تو یوسف ؑکویاد کرتے کرتے گھل جائیں گے اور جان دے دیں گے۔ انھوں نے فرمایا: میں اپنی شکایت تو اللہ سے کرتاہوں اور میں ایسی باتیں جانتا ہوں جن کی تمہیں خبر نہیں، جائو!یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو۔ وہ مصر ہی میں کہیں نہ کہیں مل جائیں گے، اللہ کی رحمت سے نااُمید ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔
حضرت یوسف ؑ کی بھائیوں سے ملاقات:
اب ایک بار پھر سب بھائی مل کر مصر پہنچے، حضرت یوسف ؑسے گھر والوں کی بُری حالت بیان کی اور کہا کہ ہم اپنے ساتھ ایک معمولی سی پونجی لے کر آئے ہیں، مگر چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں پورا پورا غلہ