ہے، اس کو سمجھالو ورنہ اچھا نہ ہوگا۔
حضرت ابراہیم ؑنے اپنے باپ کو بھی سمجھایا اور بت پرستی سے منع کیا اور عرض کیا کہ اے باپ! میں ڈرتا ہوں کہ تجھ پر خدا کاکوئی عذاب نازل نہ ہو، اس پر ان کے باپ بہت سخت ناراض ہوئے اور کہا کہ آیندہ تو نے مجھ سے کوئی ایسی بات کہی تو میں تجھے سنگسار کردوں گا اور کہا کہ تو میرے پاس سے ہمیشہ کے لیے چلا جا۔ حضرت ابراہیم ؑنے باپ کو سلام کیا اورکہا: میں چلا جاتاہوں، لیکن تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا۔
حضرت ابراہیم ؑ اور آگ:
بچو! پھر کیا ہوا؟ وہاں کے بادشاہ نمرود کو جو بہت ظالم اور بت پرست تھا، ان سب باتوں کاپتہ چلا کہ آزر کابیٹا ابراہیم لوگوں کو بتوں کی پوجا سے منع کرتا ہے اور ایک خدا کی دعوت دیتا ہے، تو اس نے آپ ؑکو اپنے دربار میں بلایا اور آپ سے جھگڑنے لگا۔
حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا کہ میرا خدا تو وہی ہے جو مارتا بھی ہے اور جلاتا بھی ہے، نمرود نے کہا کہ میں بھی مار سکتا ہوں اور جلاسکتاہوں۔ چناںچہ اس نے ایک قیدی کو جس کو سزائے موت کاحکم ہوچکا تھا آزاد کردیا اور ایک بے گناہ کو پکڑ کر قتل کر ادیا اور کہا کہ اب بتائو کہ میرے اور تمہارے خدا کے درمیان کیا فرق ہے؟ حضرت ابراہیم ؑنے کہا کہ میرا رب ہر روز سورج مشرق سے نکلتا ہے تم اسے مغرب سے نکال دو۔ اس پر نمرود لاجواب ہوگیا اور حکم دیا کہ (حضرت) ابراہیم ( ؑ) کو زندہ جلا دیا جائے۔ چناںچہ ایک آگ جلائی گئی، جب آگ بہت بھڑک اُٹھی اور اس کے شعلے آسمان کی خبر لانے لگے تو حضرت ابراہیم ؑ کو اس میں ڈال دیا گیا۔ مگر وہ آگ خدا کے حکم سے ٹھنڈی ہوگئی اور آپ ؑکو آگ سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔
بچو! اس طرح جو لوگ اللہ تعالیٰ کے کہنے پر چلتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ہر تکلیف سے بچالیتے ہیں اور ان کے لیے آسانیاں ہی آسانیاں ہوجاتی ہیں۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کا کہنا نہیں مانتے ان کے لیے اس دنیا میں بھی مشکل ہوتی ہے اور مرنے کے بعد تو ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔
حضرت ابراہیم ؑاور زم زم :
حضرت ابراہیم ؑاللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ہاجرہ اور اپنے بچے حضرت اسمٰعیل ؑکو جو ابھی پیدا ہوئے تھے ایک ایسی جگہ چھوڑ آئے جہاں دور دور تک آبادی نہ تھی اور نہ پانی تھا اور نہ کوئی درخت تھا۔ حضرت ہاجرہ نے حضرت اسمٰعیل ؑکو ایک پتھر کے سایہ میں لٹایا اور خود پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑ یں لیکن پانی نہ ملا، خدا کی قدرت سے جہاں حضرت اسمٰعیل ؑایڑیاں رگڑ رہے تھے، وہاں پانی کاچشمہ پھوٹ نکلا جو آج تک زم زم کے نام سے مشہور ہے۔ اور حضرت ہاجرہ جہاں دوڑیں تھی اسے صَفا و مَروہ کہتے ہیں، جہاں جا کر آج حاجی اسی طرح دوڑتے ہیں۔