۲۔ {وَلاَ تَقْتُلُوْا أَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ ط نّحْنُ نَرْزُقُہُمْ واِیَّاکُمْ ط اِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا oوَلاَ تَقْرَبُوْا الزِّنٰی انَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ط وَسَآئَ سَبِیْلاً o وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالحَقِّ ط وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطٰناً فَلاَ یُسْرِف فِّی الْقَتْلِ ط اِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْراً oوَلاَ تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ}1
اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خو ف سے قتل نہ کرو۔ ہم انھیں بھی رزق دیں گے، اور تمہیں بھی، یقین جانو کہ ان کو قتل کرنا بڑی بھاری غلطی ہے۔اور زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو۔ وہ یقینی طور پر بڑی بے حیائی اور بے راہ روی ہے۔ اور جس جان کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے ، اسے قتل نہ کرو، الا یہ کہ تمہیں (شرعاً) اس کاحق پہنچتا ہو۔ اور جوشخص مظلومانہ طور پر قتل ہوجائے تو ہم نے اس کے ولی کو(قصاص) کا اختیار دیا ہے۔ چناںچہ اس پر لازم ہے کہ وہ قتل کرنے میں حد سے تجاوز نہ کرے۔ یقینا وہ اس لائق ہے کہ اس کی مدد کی جائے۔اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ پھٹکو۔
۳۔ { یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْْسِرُ وَالاَنْصَابُ وَالاَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ}2
اے ایمان والو! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوے کے تیر، یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہٰذا ان سے بچو ، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔
قیامت
بچو! قیامت اس وقت قائم ہوگی جب دنیا میں کوئی لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ کہنے والا نہ رہے گا اور دنیا ایمان والوں سے خالی ہوجائے گی۔ اس وقت دنیا کو اللہ پاک فناکردیں گے۔
سب سے پہلے حضرت اسرافیل ؑصور پھونکیں گے، جس کی آواز آہستہ آہستہ اتنی سخت اور خوفناک ہوجائے گی کہ کوئی جاندار زندہ نہ رہے گا۔ زمین وآسمان ٹوٹ جائیں گے۔ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگیں گے۔ سوائے اللہ کی ذات کے سب چیزیں فناکردی جائیں گی اور ایک لمبا زمانہ اس حالت میں گزرے گا۔پھر اس کے بہت عرصہ بعد حضرت اسرافیل ؑدوبارہ صور پھونکیں گے تو مردے زندہ ہو کر قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور ٹڈیوں کی طرح پریشان غول کے غول محشر کے میدان میں جمع ہوں گے، قرآن کریم میں ہے:
{وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا ہُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰی رَبِّہِمْ یَنْسِلُوْنَo قَالُوْا یٰوَیْْلَنَا مَنْم بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا ہَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ o اِنْ کَانَتْ اِلَّا صَیْْحَۃً وَاحِدَۃً فَاِذَا ہُمْ جَمِیْعٌ لَّدَیْْنَا مُحْضَرُوْنَo}1
اور صور پھونکا جائے گا تو یکایک یہ اپنی قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف تیزی سے روانہ ہوجائیں گے۔ کہیں گے کہ ہائے ہماری کم بختی!ہمیں کس نے ہمارے مرقد سے اُٹھا کھڑا کیا ہے؟ (جواب ملے گا کہ) یہ وہی چیز ہے جس کاخدا ئے رحمن نے وعدہ کیا تھا، اورپیغمبروں سے سچی بات کہی تھی۔ اور وہ کچھ نہیں ،بس ایک زور کی آواز ہوگی، جس کے بعد یہ سب کے سب ہمارے سامنے حاضر