کیسے آئے کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ ہی نے نازل کی ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ سے فرمایا کہ وہ قوم سے سر نمائندے منتخب کر کے انہیں کوہِ طور پر لے آئیں ۔ چناںچہ کوہِ طور پر ان کو اللہ تعالیٰ کاکلام سنادیا گیا، لیکن اب انھوں نے اپنے مطالبے کو بڑھا کر یہ کہا کہ ہمیں تواس وقت تک تورات پر یقین نہیں آئے گا جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو کھلی آنکھوں نہ دیکھ لیں۔ان کے اس غلط مطالبے کی وجہ سے بجلی کی کڑک نے اُن کو آلیا جس نے زلزلے کی کیفیت پیدا کردے اور وہ سب بے ہوش ہوکر گر پڑے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو دوبارہ زندہ کردیا کہ پھر ایسی بات زبان سے نہ نکالیں گے۔
ایسے ہی ایک بار حضرت موسیٰ ؑنے ان سے ایک جانور کی قربانی کرنے کو کہا تو اس پر بھی انھوں نے بہت حیل وحجت شروع کردی اور جانورکی صفات کے بارے میں فضول سوال کرتے رہے ، آخر کار بڑی مشکل سے انھوں نے ایک جانور کی قربانی کی۔
قوم کی بزدلی اور نافرمانی:
آپ نے قوم سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں نبی پیدا کیے اور تمہیں فرعون سے آزاد کیا۔ اب تم ہمت کر کے ملک شام پر حملہ کرو۔ اللہ تمہیں ضرور کامیاب کرے گا اور اگر تم نے بزدلی سے کام لیا تو ضرور نقصان اُٹھائو گے، مگر ان لوگوں نے صاف انکار کردیا اور کہا: وہاں کے رہنے والے بڑے بہادر اور جواںمرد ہیں، اگر وہ اپنے آپ اس ملک کوخالی کردیں تو ہم ضرور اس ملک پر قبضہ کرلیں گے، ورنہ آپ جانیں اور آپ کاخدا، ہم تو یہاں سے ایک انچ آگے نہیں بڑھیں گے۔
آپ ان کاجواب سن کر بہت ناراض ہوئے اور دعا کی:
اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو ان نافرمانوں سے الگ کردے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہواکہ تم ان بدبختوں کی وجہ سے رنج نہ کرو، ہم نے چالیس سال تک ان کا داخلہ ملک شام میں بند کردیا ہے، یہ جنگل ہی میں بھٹکتے پھریں گے۔ چناںچہ ایسا ہی ہوا اور چالیس سال تک وادیٔ تیہ میں بھٹکتے رہے۔
حضرت موسیٰ ؑ کی حضرت خضر ؑ سے ملاقات :
ایک مرتبہ بنی اسرائیل نے آپ سے پوچھا کہ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟ حضرت موسی ؑ چوں کہ نبی تھے اور آپ کے علم میں اپنے سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی نہیں تھا، اس لیے فرمایا کہ انسانوں میں میں سب سے بڑا عالم ہوں۔ یہ بات اگرچہ فی نفسہ درست تھی، مگر ادب کا تقاضہ یہ تھا کہ حضرت موسی ؑ اس کو اللہ کے علم کے حوالے کرتے ،یعنی یہ کہہ دیتے کہ اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ ساری مخلوق میں بڑا عالم کون ہے؟ بہر حال اللہ تعالیٰ کو یہ جواب پسند نہیں آیا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے موسی ؑپر وحی نازل کی کہ ہمارا ایک بندہ دوسمندروں کے ملنے کی جگہ پر رہتا ہے، وہ آپ سے بھی بڑا عالم ہے، موسی ؑنے سوچا کہ اس بندے سے ضرور استفادہ کرنا