لے لیا۔ چچا کو اپنے بھتیجے سے بے حد محبت تھی اور وہ آپ کو بیٹوں سے زیادہ چاہتے تھے۔
وحی: بچو! عرب کی حالت اس وقت بہت خراب تھی جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے، گو حضور ﷺ نے انہیں لوگوں کے درمیان رہ کر پرورش پائی اور آپ کااٹھنا بیٹھنا، ملناجلنا ان ہی لوگوں کے ساتھ تھا، مگر آپ نے کسی کی گندی عادت نہیں لی۔ آپ کے ہر کام میں صفائی ستھرائی پائی جاتی تھی، آپ کی دیانت، سچائی اور پاکیز گی کی شہرت ہوتی چلی گئی اور لوگ آپ کو صادق اور امین کہہ کر پکارنے لگے۔ جب آپ پچیس سال کے ہوئے تو آپ کی شادی حضرت خدیجہ سے ہوئی جوبیوہ تھیں، حضور ﷺ ان کاتجارت کامال لے کر عرب کے مختلف ملکوں میں جاتے، وہاں بھی آپ کو امین اور صادق کہہ کر پکارا جاتا۔ مکہ معظمہ سے تین میل کے فاصلے پر پہاڑ میں ایک غار تھا جس کو غارِ حرا کہتے ہیں، حضور ﷺ کئی کئی روز کاکھانا لے کر اس غار میں چلے جاتے اور وہاں اکثر اللہ تعالیٰ کی عبادت اور سوچ بچار میں وقت گزارتے۔ ایک روز رمضانُ المبارک کا مہینہ تھا اور آپ کی عمر مبارک چالیس برس کی ہوچکی تھی۔ آپ معمول کے مطابق غار حرا میں عبادت میںمشغول تھے۔ اچانک حضرت جبریل ؑتشریف لائے اور قرآن پاک کی یہ آیتیں آپﷺکو پڑھ کر سنائیں:
{اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍo اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ o}1
پڑھو اپنے پروردگار کانام لے کر جس نے سب کچھ پیدا کیا، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے۔ پڑھو، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کرم والا ہے، جس نے قلم سے تعلیم دی، انسان کو اس بات کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا۔
قوم کو دین وایمان کی دعوت:
بچو! غارِ حرا میں آپ کو نبوت عطا کی گئی اور حکم دیا گیا کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کاسیدھا راستہ بتائیں، بتوں کی عبادت سے چھڑا کر ایک اللہ کی عبادت کرنے کاحکم دیں۔یہ کام آسان نہیں تھا، ایسی ذمہ داری کاخیال کر کے آپ کانپ گئے اور گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے۔ حضرت خدیجہ ؑ نے آپ کو تسلی دی اور کہا:میرے آقا ! آپ پریشان نہ ہوں، اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہے، وہ آپ کو کبھی خوف ورنج میں نہیں ڈالے گا۔
آپﷺنے اللہ کے حکم کے مطابق سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں اور گہرے دوستوں کو اللہ کی طرف بلایا اور فرمایا:
قُوْلُوْا:لَا إِلٰہَ إِلَّااللّٰہُ۔
کہو:اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ اس زمانہ میں عرب میں بت پرستی کا زور تھا۔ خانہ کعبہ جو اللہ کا گھر ہے، اس میں بے شمار بت رکھے تھے، اس لیے ان میں سے اکثر کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی، اور اس بات پر وہ آپﷺسے لڑنے کو تیار ہوگئے۔
سب سے پہلے حضرت خدیجہ ؑ، حضر ت علی کرم اللہ وجہہ آپ کے چچاز اد بھائی، حضرت زید بن حارثہ آپﷺکے آزاد