عبد اﷲبن جعفرؓ کے شہید ہوجانے کی خبر آئی تو رسول اﷲ ﷺ نے اپنے گھر والوں کو فرمایا کہ جعفرؓ کے اہل و عیال کے لئے کھانا تیار کرو اس لئے کہ ان کو ایسی خبر پہنچی ہے جو اُن کو مشغول کر دے گی(یعنی جعفرؓ کے موت کی خبر آگئی ہے جس کے صدمہ اور رنج میں مشغول ہو کر کھانے پینے کے انتظام کی خبر نہ رہے گی) (ابوداؤد۔ ترمذی۔ ابن ماجہ)
۱۳۱:۔ آدمی کو اپنی حقارت اور بدعملی پر نظر کر کے اپنے آپ کو یقینی دوزخی سمجھ لینا باعثِ ثواب و رحمت ہے یا مذموم ہے؟
۔ ایسا یقین کر لینا نہایت مذموم ہے۔ اپنے عمل پر نظر کر کے خدا کے غضب سے ڈرتا رہے، اس کی رحمت سے نجات کا امیدوار رہے۔
انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ ایک جوان کے پاس نزع کے وقت تشریف لائے اور پوچھا کہ کیا حال ہے؟ اس نے عرض کیا کہ اﷲتعالیٰ سے(نجات کی)امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں (کے وبال) سے ڈرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ جس مومن کے قلب میں یہ دونوں( یعنی خوف و رجا) ایسے وقت میں (یعنی نزع کے حال میں)جمع ہوتی ہیں خدا تعالیٰ اس کو وہ چیز عطا کرتا ہے جس کی اس کو امید ہوتی ہے اور جس چیز سے ڈرتا ہے اس سے بچا لیتا ہے۔ (ترمذی۔ ابن ماجہ)
جابرؓ فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی مرے تو ایسے حال میں مرنا چاہئے کہ خدا سے نیک گمان رکھتا ہو (یعنی یہ اُمید ہو کہ خدا تعالیٰ اپنی رحمت سے اچھا معاملہ کرے گا ) (مسلم)
۱۳۲:۔ رسول اﷲﷺ نے سب سے آخر کونسی بات فرمائی ہے؟
۔ سب سے آخر میں جو کلمہ آپ نے فرمایا وہ یہ تھا اَللّٰھُمَّ الرَّفِیْقَ الْاَعْلٰی۱؎ (یعنی اے خدا تعالیٰ! میں رفیق اعلی کو اختیار کرتا ہوں) آپ کو خدا تعالیٰ نے دُنیا میں رہنے اور سفر آخرت کرنے کا اختیار دیا تھا۔ آپ نے موت ہی کو اختیار فرمایا اور آخر وقت میں چند بار اسی کو فرمایا، اے خداتعالیٰ میں رفیق اعلی یعنی موت کو اختیار کرتا ہوں (جو خدا تعالیٰ کے جوار اور قربِ رحمت میں پہنچا دینے والی اور انبیاء وصدّیقین وشہداء سے ملانے والی ہے)
عائشہؓ فرماتی ہیں کہ سب سے آخری کلمہ جو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا وہ یہ تھا اَللّٰھُمَّ الرَّفِیْقَ الْاَعْلٰی(بخاری۔ مسلم)
۱۳۳:۔ دنیا میں کسی کو بُرا یا بھلا عمل کرتے ہوئے دیکھ کر جنتی یا دوزخی کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟
۔ یقینی طور سے کسی کو نہیں کہہ سکتے کیونکہ انجام اور خاتمہ کا اعتبار ہے جس کا حال ابھی نہیں معلوم۔
سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا