پھینک دیں، ان کو گود میں لے کر طواف وغیرہ کرا دیں، احرام باندھ دیں (اگر بہت چھوٹا بچہ ہو تو اس کو بالکل برہنہ کر دینا بھی کافی ہے)
:۔ ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ’’روحاء‘‘ ۲؎میں سواروں کی ایک جماعت سے رسول اﷲ ﷺ کی ملاقات ہوئی۔ اُن میں سے ایک عورت نے ایک بچّہ کو اُٹھا کر کہا کہ یا رسول اﷲ! اس کا حج ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ہوسکتا ہے اور تجھ کو اجر ملے گا۔ (مسلم و ابوداو‘ و نسائی وترمذی)
:۔ حضرت جابر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول خدا ﷺ کے ہمراہ حج کیا اور عورتیں اور بچے بھی ہمارے ساتھ تھے تو ہم نے بچوں کی طرف سے تلبیہ (لبیک) بھی پڑھ دیا اور رمی بھی کر دی۔ (ابن ماجہ۔ ترمذی)
:۔ سائب بن یزید رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد رضی اﷲ عنہ نے حجۃ الوداع میں رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ مجھ کو بھی حج کرایا جب کہ میری عمر سات سال کی تھی۔ (بخاری و ترمذی)
۴۹:۔ ایک شخص کے ذمّہ پر حج بھی فرض ہوچکا ہے اور بالفعل قرض بھی ذمہ پر ہے۔ روپیہ اس قدر ہے کہ صرف ایک کام ہوسکتا ہے۔ قرض ہی ادا کر دے یا حج ہی۔ شرعاً کس کو مقدّم کرنا چاہئے؟
۔ اوّل قرض اداکرنا چاہئے۔ اور پھر جب مقدور ہوجائے تو حج بھی ضرور ادا کرلے۔
:۔ ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول خدا ﷺ! مجھ پر حج بھی فرض ہے اور میرے ذمہ پر قرض بھی ہے( اور مال اتنا ہے نہیں کہ دونوں ادا ہوجائیں۔ اب فرمائیے کس کو پہلے ادا کروں) آپ نے ارشاد فرمایا کہ قرض ادا کرو (رزین)
۵۰:۔ ایک شخص اپنے ماں باپ کی زندگی میں اُن کی نافرمانی کر کے ان کو ایذا دیتا رہا۔ اب مر گئے تو پشیمان ہوتا ہے۔ کیا کوئی ایسی تدبیر ہے کہ اب وہ اس سے راضی ہوجائیں اور یہ نافرمان شمار نہ ہو۔
۔ اس کی تدبیر یہ ہے کہ اُ ن کی طرف سے صدقہ اور خیرات کر کے ثواب پہنچائے اور ان کی مغفرت کی دعا کرے۔ اور اگر قرض چھوڑ گئے ہوں تو اُس کو ادا کرے۔ اور سب سے عُمدہ تدبیر یہ ہے کہ اُن کی طرف سے حج ادا کرے۔ جب ان باتوں کی بشارت اور نفع اُن کو اُس عالم میں پہنچے گا تو وہ خود ہی خوش ہوجائیں گے اور خدا تعالیٰ کے دفتر میں فرمانبردار بیٹوں میں لکھا جائے گا۔
:۔ زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے ماں باپ میں سے کسی کی طرف سے حج کرے تو اس کی طرف سے کافی ہوجائے گا (اور اُس کے بیٹے کو بھی ثواب ملے