۲۲: ۔فقہ کی کتابوں میں نابینا کی امامت کو مکروہ لکھا ہے۔ یہ کراہت ہر ایک نابینا کی امامت میں ہوگی یا بعض میں ؟
: کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اکثر نابینا لوگوں سے پاکی ناپاکی میں پوری تمیز اور احتیاط نہیں ہوسکتی۔ پس جو نابینا پورا احتیاط رکھنے والا اور پاک صاف ہو اس کی امامت مکروہ نہ ہوگی اور اگر عالم اور پرہیز گار بھی ہو تو اس کی امامت اولیٰ اور افضل ہوگی اگرچہ نابینا ہو۔
:۔ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے غزوئہ تبوک ۱؎ میں تشریف لے جانے کے وقت عبد اﷲ بن ام مکتوم (نابینا) کو مدینہ میں نماز پڑھانے کیلئے اپنا قائم مقام بنا دیا تھا۔ (طبرانی فی الکبیر و ابویعلٰی و ابوداو‘د از انسؓ)
:۔ عبد اﷲ بن عمیر رضی اﷲ عنہ جو بنی حطمہ کے امام تھے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کے زمانہ ہی میں مَیں بنی حطمہ کا امام تھا حالانکہ میں نابینا تھا اور آنحضرت ﷺ کے ہمراہ جہاد میں بھی گیا تھا۔ حالانکہ نابینا تھا۔ (طبرانی فی الکبیر)
۲۳:۔ امام نے اس ارادہ سے نماز شروع کی کہ بہت بڑی سورت پڑھ کر نہایت اطمینان سے نماز ادا کروں گا۔ نماز کی حالت میں کوئی سخت ضرورت پیش آگئی۔ مثلاً بڑے زور سے بارش آگئی یا جس گاڑی میں مسافروں کو سوار ہونا ہے اس کے آنے کی آواز آگئی تو نماز کو مختصر کر دینا یا شروع کی ہوئی سورت کو درمیان میں چھوڑ دینا جائز ہے یا نہیں؟
۔ اس قسم کی ضرورتوں میں جائز بلکہ مسنون یہی ہے کہ قراء ت کو کم اور نماز کو جلد ختم کر دے ورنہ خود اس کا اور مقتدیوں کا دل نماز میں نہ رہے گا، نماز پڑھنا گراں ہوجائے گابلکہ بعض کو نماز چھوڑ کر بھاگنے کی نوبت آئے گی۔
:۔ ابوقتادہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ میں نماز کو دراز پڑھنے کے ارادے سے شروع کرتا ہوں ( اور نماز کے درمیان میں) بچہ کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو چونکہ مجھ کو اس کی ماں کے دل کی پریشانی کا خیال ہوتا ہے۔ لہٰذا نماز کو مختصر کر دیتا ہوں۔ (کہ کبھی ایسا نہ ہو کہ فتنہ میں پڑ جائے یعنی صبر نہ کر سکے اور نماز کو چھوڑ دے) (بخاری و ترمذی وابن ماجہ و ابوداو‘د)
۲۴:۔ اگر نماز پڑھتے ہوئے امام کی آواز رک جائے یا کھانسی وغیرہ کوئی عذر پیش آجائے یا قرآن شریف بُھول جائے اور یاد نہ آئے تو شروع کی ہوئی سُورت کو درمیان میں چھوڑ کر رکوع کر دینا جائز ہے یا نہیں؟
۔ اگر بقدر تین آیت الحمد کے بعد پڑھ چکا ہے تو اس قسم کے عذر میں مناسب یہی ہے کہ درمیان میں چھوڑ کر رکوع کر دے۔