۱۰۰:۔ بیعت کے وقت جس طرح مرشد کے ہاتھ میں ہاتھ مرد دیتے ہیں اس طرح عورتوں کو بھی چاہئے یا صرف زبانی بیعت بھی کافی ہے۔
۔ بیعت کے وقت ہاتھ میں ہاتھ دینا بقاعدئہ شریعت و طریقت کچھ ضروری نہیں۔ مَردوں سے بھی صرف زبانی بیعت کافی ہوسکتی ہے البتہ ہاتھ پر ہاتھ رکھنا مَردوں کے لئے مسنون ہے اور نامحرم عورتوں کے ہاتھ کو چُھونا تو بالکل ناجائز و حرام ہے، جو جاہل پیر ایسا کرتے ہیں وہ گنہگار ہوتے ہیں۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم رسول اﷲﷺ بیعت میں عورتوں سے صرف وہی وعدے لیتے تھے جس کا خدا تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۱؎ اور رسول اﷲﷺ کے ہاتھ نے کبھی (بیعت کے وقت )کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چُھوا۔ آپ جب اُن سے بیعت لیتے (یعنی حسب قاعدہ اقرار کرا لیتے) تو صرف زبانی یہ فرما دیتے کہ جاؤ ہم نے تم کو بیعت کر لیا ( بخاری۔ مسلم۔ ابوداؤد۔ ابن ماجہ)
امیمہ بنت رقیقہؓ فرماتی ہیں کہ مَیں نے اپنی چند رشتہ دار عورتوں کے ہمراہ رسول اﷲﷺ سے بیعت کی اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ ہم سے ہاتھ ملا لیجئے۔ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ مَیں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔ سَو عورتوں سے بھی اُسی طرح زبانی بیعت لیتا ہوں جیسے ایک عورت سے (مؤطاامام مالک۔ ترمذی۔ نسائی)
۱۰۱:۔ بعض حدیثوں اور بزرگوں کے اقوال میں خاموشی کی نہایت تعریف کی گئی ہے اور مفید خلق اور نیک کلام کا بھی بڑا ثواب وارد ہوا ہے۔ اب فرمائیے کہ دونوں میں بہتر اور زیادہ ثواب کا موجب کون ہے؟
خدا تعالیٰ کا ذکر اور نیک کلام جس سے دوسروں کو نفع پہنچے خاموشی سے بدرجہا زیادہ ثواب رکھتا ہے۔
حضرت ابو ذرؓ مسجد میں تنہا بیٹھے تھے۔ حضرت حِطّان نے پوچھا کہ جناب تنہا کیوں بیٹھے ہو؟ ابوذرؓ نے فرمایا کہ مَیں نے رسول اﷲﷺ کو یہ کہتے ہوئے سُنا ہے کہ بُرے ہمنشین سے تنہائی بہتر ہے۔ اور اچھا ہمنشین تنہائی سے بہتر اور نیک کلام کہنا سکوت سے بہتر ہے اور بُرے کلام سے سکوت بہتر ہے (بیہقی)
۱۰۲:۔ عورتوں کو لکھنا سکھلانا جائز ہے یا نہیں؟
۔ بعض علماء نے بوجہ مصلحت وغیرہ کے اس کو ناجائز فرمایا ہے۔ مگر صحیح اور قوی قول یہ ہے کہ جائز و درست ہے۔
شفاء۱؎ؓ فرماتی ہیں کہ میں حفصہؓ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی کہ رسول اﷲﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ اُن کو (یعنی حفصہؓ کو) سُرخ بادہ۲؎ کا منتر کیوں نہیں سکھلا دیتی جیسے ان کو لکھنا سکھلا دیا ہے (ابوداؤد)
۱۰۳:۔ کسی کا استقبال کرنا یعنی شہر سے باہر یا مکان