اگر ایک بھی ذبح کر دیا جائے تو کافی ہے۔ اور عقیقہ کی سنت اُس سے بھی ادا ہوجائے گی۔
:۔ علی نے فرمایا کہ رسول اﷲ ﷺ نے حسن کے عقیقہ میں ایک بکری ذبح فرمائی اور فرمایا کہ اے فاطمہ! بچہ کا سر مونڈو اور اس کے ہم وزن چاندی خیرات کرو (علی فرماتے ہیں کہ) ہم نے حسن کے بالوں کو وزن کیا تو اُن کا وزن ایک درہم تھا یا کِسی قدر کم (ترمذی)
۶۲:۔ بچہ پیدا ہونے کے کتنے دن بعد عقیقہ ہونا چاہئے؟ جوانی میں بھی عقیقہ ہو سکتا ہے یا نہیں۔ سنا ہے کہ جناب رسالت مآب نے اپنا عقیقہ خود کیا تھا۔
۔ سب سے بہتر ساتواں روز ہے۔ اگر نہ ہو سکے تو چودھواں اور اکیسویں روز کیا جائے۔ اس کے بعد سات ہفتے یا سات ماہ یا سات سال پر کرنے سے عقیقہ کی فضیلت وسنت ادا نہیں ہوتی اگرچہ مسلمانوں کو کھانا کھلانے کا ثواب اس وقت بھی ہوجائے گا۔ حضرت خاتم النبوت کے خود اپنا عقیقہ کرنے کی روایت صحیح و معتبر نہیں۔
:۔بریدہ فرماتے ہیں کہ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا ہے کہ عقیقہ کا جانور ساتویں روز ذبح کیا جائے یا چودھویں یا اکیسویں (طبرانی فی الاوسط)
۶۳:۔ ولد الزنا پر ماں باپ کے فعل کا کچھ اثر اور گناہ رہتا ہے یا نہیں؟ سنتے ہیں ولد الزنا والدین کے ساتھ دوزخ میں جائے گا۔
۔اُس غریب بے قصور پر کچھ گناہ نہیں۔ البتہ ماں باپ کے ہمراہ دوزخ میں جب جائے گا کہ ان کی طرح بُرے عمل کرتا رہے اور توبہ نہ کرے۔ اس کے پیچھے نماز مکروہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر ایسے لڑکوں کا کوئی خبر گیراں اور سرپرست نہیں ہوتا۔وہ بالکل جاہل ناواقف رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ عام طبیعتوں میں اس کی طرف کچھ ایسی ذلّت اور حقارت ونفرت ہوتی ہے کہ اس کی امامت سب کو ناگوار گزرتی ہے۔ شریعت میں ان وجوہ سے اس کی امامت کو مکروہ کہا گیا ہے کسی اس کے قصور کی وجہ سے نہیں۔
:۔عائشہ رضی اﷲ عنہا کہ رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا کہ ولد الزّنا پر اس کے والدین کے گناہ کا بالکل بار نہیں رہتا۔ (یعنی ان کے گناہ کا بوجھ اُس کے ذمّہ پر کچھ بھی نہیں ہوتا) (حاکم)
۶۴:۔ہم نے وعظ میں سُنا ہے کہ ستّاری اور پردہ پوشی کے خیال سے قیامت کے روز خدا تعالیٰ لوگوں کو ان کے باپ کے نام سے نہ پکارے گا۔ بلکہ ماں کے نام سے (مثلاً حامد پسر زینب)