:۔ عقیل بن ابی طالب (علی رضی اﷲ عنہ کے بھائی) سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص نکاح کرے تو اس کو یہ دُعا دیا کرو:
بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ وَبَارَکَ عَلَیْکَ وَ جَمَعَ بَیْنَکُمَا فِیْ خَیْرٍ
(یعنی خدا تعالیٰ تمہارے واسطے برکت کرے اور دونوں میں بہبودی اور اتفاق رکھے)
:۔ کعب بن مالکؓ (اپنی توبہ قبول ۱؎ہونے کے طویل قصّہ میں) فرماتے ہیں کہ مَیں نے ایک چلّانے والے کی آواز سُنی کہ اے کعب! تم کو بشارت ہو جس کی میں نے آواز سنی تھی جب وہ میرے پاس آیا تو مَیں نے اپنے کپڑے اتار کر اس کو (بطور انعام) دے دیئے۔ اور خدا کی قسم اس روز میرے پاس کے اُن کے سوا کپڑے نہیں تھے۔ پس میں نے کپڑے مستعار (مانگے ہوئے) لے کر پہنے۔ اور جا کر مسجد میں داخل ہوا تو رسول اﷲ ﷺ (اور بہت سے صحابہ) بیٹھے ہوئے تھے (مجھ کو دیکھ کر) طلحہ بن عبد اﷲؓ دوڑ کر اُٹھے اور مصافحہ کیا اور مبارکباد دی۔(بخاری ومسلم و ابوداو‘د)
۵۷:۔ شادی اور نکاح وغیرہ کی تقریب پر مکان اور کپڑے وغیرہ درست کرنا اور کچھ جہیز بیٹی کو دینا جائز ہے یا نہیں؟
۔ یہ امور مسنون ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے اپنی صاحبزادی زینب رضی اﷲ عنہا کو ایک کنٹھا (ہار) اور فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو چادر، تکیہ ، مشکیزہ اور چکّی وغیرہ جہیز میں دی تھی۔ البتہ واہیات رسوم کی پابندی یا فضول خرچی کرنا اور فخر وناموری کیلئے ایسے امور کاکرنا ممنوع ومعیوب ہیں۔
:۔ ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم کو رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فاطمہؓ کو علیؓ کے پاس رخصت کرنے کیلئے جہیز (سامان) کر دو۔ پس ہم نے مکان کو اطراف بطحا۱؎ کی نرم مٹی سے لیپ دیا۔ پھر دو تکیوں میں اپنے ہاتھ سے دھن کر چھال بھر دی۔ پھر خُرما اور کشمش کھائے اور میٹھا پانی پیا۔ اور ایک لکڑی گھر کے کونے میں لگا دی جس پر کپڑے ڈالے جائیں اور مشکیزہ لٹکایا جائے (ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ) اس سے اچھی شادی ہم نے کوئی دیکھی ہی نہیں (یعنی بابرکت اور بے تکلّف سادہ) (ابن ماجہ)
۵۸:۔ اگر کسی شخص کے دو تین زوجہ ہوں اور ان میں سے کوئی اپنی نوبت (یعنی رات کو رہنے کی باری) دوسری زوجہ کو دے دے تو یہ دیناجائز ہے یا نہیں؟
۔ اگر بلا جبر واِکراہ برضا و رغبت اپنی باری دوسری کو بخش دے تو صحیح و درست ہے۔ اور ایسی حالت میں مرد اگر اس کی نوبت میں بھی دوسری بی بی کے پاس رہے گا تو اس کو کچھ گناہ نہ ہوگا۔ کیونکہ جس کا حق