:۔ عبد اﷲ بن سائب رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے صبح کی نماز میں سورئہ مؤمنون پڑھنی شروع فرمائی۔ پڑھتے پڑھتے جب موسی اور ہارون علیہما السلام (یا عیسٰی) علیہ السلام کے ذکر پر پہنچے تو آپ کو کھانسی آگئی ۔ آپ نے (وہیں) رکوع کر دیا۔ (بخاری شریف)
۲۵:۔ فجر کے وقت جب جماعت کی نماز شروع ہوگئی ہو سنتیں پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر جماعت جاتی رہنے کے خوف سے ان سنتوں کو چھوڑ دیا تو کس وقت ادا کرے؟
۔ چار وقت میں تو نماز فرض جماعت سے ہو جانے کے بعد کسی نفل یا سنت کو شروع کرنا نہ چائے۔ بلکہ جماعت میں شریک ہوجانالازم ہے۔ صرف صبح کی سنتوں میں اس قدر اجازت ہے کہ اگر امام بڑی بڑی سورتیں پڑھتا ہے اور اس شخص کو اُمید ہے کہ سنت پڑھنے کے بعد بھی بالکل جماعت نہ چھوٹے گی بلکہ دوسری رکعت مل جائے گی تو مسجد کے کسی گوشہ میں امام سے دور یا مسجد کے آس پاس ( جیسے وضو کی جگہ یا حجرہ وغیرہ) سنت پڑھ سکتا ہے۔ لیکن امام متصل جماعت کے برابر پڑھنا سخت مکروہ ہے۔ اور اسی طرح جماعت بالکل چھوٹ جانے کا خوف ہو تو سنت نہ پڑھے جماعت میں شریک ہوجائے۔ اور آفتاب نکلنے کے بعد سنت کو قضا پڑھ لے۔ اگر کسی کام یا ضرورت کی وجہ سے آفتاب نکلنے تک انتظار نہیں کر سکتا تو اپنے کام میں لگ جائے۔ جب آفتاب بلند ہوجائے دو رکعت پڑھ لے۔ اور اگر موقعہ ہی نہ ملے یا بُھول گیا تب بھی گنہگار نہ ہوگا۔ لیکن سر سے بار ٹالنے کیلئے فرض کے بعد فوراً ہی اس کو پڑھ لینا اور طلوع آفتاب کا انتظار نہ کرنا سخت مکروہ ہے۔ اس سے تو نہ پڑھنا بہتر ہے۔
:۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب جماعت شروع ہوجائے تو فرض نماز کے سوا کسی نماز کو نہ پڑھنا چاہئے۔ لیکن فجر کی سنتیں پڑھ سکتا ہے۔ (بیہقی)
:۔ ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے صبح کی سنتیں نہ پڑھی ہوں اس کو چاہئے کہ آفتاب طلوع ہونے کے بعد پڑھے (ترمذی وابن ماجہ)
۲۶:۔ بعض مولویوں سے سنا ہے کہ فجر کے سنت اور فرض نماز کے درمیان کلام کرنا بالکل جائز نہیں یہاں تک کہ جو لوگ سنت پڑھ کر فرض کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہوں آنے والے کو اُن سے سلام کرنا بھی نہ چاہئے۔
۔ اتنی بات درست ہے کہ فرض و سنت کے درمیان بیہودہ کلام اور اِدھر اُدھر کے جھگڑے چھیڑنا بہت بُرا اور ممنوع ہے۔ خصوصاً صبح کے وقت جو ایک نہایت متبرک اور ذکر اﷲ کے قابل وقت ہے۔ لیکن ضروری گفتگو اور کلامِ خیر اور دین کی باتیں فجر کی سُنتیں پڑھنے کے بعد بھی جائز ہیں۔