:۔ عبادۃ بن صامتؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ جو شخص ایسی حالت میں مرجائے گا کہ پر کامل یقین رکھتا ہے وہ جنّت میں کبھی نہ کبھی ضرور داخل ہوگا۔ (مسلم)
:۔ ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہے کہ جس وقت اہلِ جنت جنت میں اور اہلِ دوزخ دوزخ میں چلے جائیں گے خدا تعالیٰ (فرشتوں) سے ارشاد فرمائے گا کہ جن لوگوں کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو اس کو بھی دوزخ سے نکال لو۔ پس وہ لوگ ایسی حالت میں نکالے جائیں گے کہ جل کر سیاہ کوئلہ ہوگئے ہوں گے ۔ اور پھر نہر حیات میں ڈال دیئے جائیں گے وہاں سے (صحیح وسالم پاک صاف ہو کر ) ایسے نکلیں گے جیسے رَوکے کوڑے میں دانہ اُگتا ہے (اور پھر جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے) (مسلم شریف)
۵:۔ بعض دفعہ دل میں ایسے بیہودہ اور بُرے خیال آجاتے ہیں کہ اگر وہ دل میں جم جائیں تو ایمان بالکل جاتا رہے۔ ان کو زبان پر لانا بھی شاق معلوم ہوتا ہے اور دل ڈرتا ہے۔ اس قسم کے خیالات دل میں آکر گذر جانے سے ایمان میں کچھ خلل آتا ہے یا نہیں؟
۔اس قسم کے خدشات اور وسوسوں سے جو صرف دل میں آکر گزر جاتے ہیں ایمان میں کچھ نقصان نہیں آتا، بلکہ اس سے تو ایمان کا پتہ لگتا ہے کہ شیطان نے اس کو مؤمن سمجھ کر اس کے دل میں وسوسہ ڈالا اور اس نے اس کو نہایت مکروہ اور یہاں تک بُرا سمجھا کہ زبان پر لانے سے بھی حیا اور خوف کرتا ہے۔
:۔ ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسالت مآبﷺ کے چند اصحاب نے آپ سے سوال کیا کہ ہم لوگ بعض دفعہ اپنے دل میں ایسے خیالات پاتے ہیں کہ جن کو بیان کرنا بھی بہت ناگوار معلوم ہوتا ہے (یعنی کہنے کے قابل ہی نہیں) آپ نے فرمایا کہ کیا واقعی تم لوگ ایسے خیالات پاتے ہو؟ عرض کیا کہ بے شک پاتے ہیں۔آپ نے فرمایا کہ یہ صریح اور صاف ایمان کی علامت ہے۔ (مسلم و ابوداو‘د)
:۔ ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے میری اُمت کے لئے وہ خطرات (اور وسوسے سے) جو دل میں گذر جاتے ہیں معاف فرما دیئے ہیں جب تک کہ اُن پر کاربند نہ ہوں اور زبان سے نہ کہیں (مسلم و بخاری)
۶:۔ بعض دفعہ عمل اور عبادت کیا تو جاتا ہے خاص اﷲ تعالیٰ کے لئے لیکن اگر کوئی اس حالت میں اتفاقیہ دیکھ پاتاہے یا کسی طرح لوگوں پر ظاہر ہوجاتا ہے تو آدمی کا دل اندر سے خوش ہوتا ہے۔ اس کو رِیا شرک اصغر