اور ایسے وقت میں السَّلامُ علیکم کو منع کرنا تو بالکل جہالت ہے۔ سلام بھی تو خدا کا ذکر ہے۔ اس کو ہرگز نہ چھوڑنا چاہئے۔
:۔ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اگر میں جاگتی ہوتی تو مجھ سے باتیں کرنے لگتے ورنہ (خاموش) لیٹ جاتے یہاں تک کہ آپ کو فرض نماز کے لئے اطلاع کی جاتی (بلال رضی اﷲ عنہ کی عادت تھی کہ جب جماعت و تکبیر کا وقت ہوجاتا تو آکر آپ کو اطلاع کر دیتے تھے) (بخاری ومسلم و ترمذی و ابوداو‘د ومؤطا مالک)
:۔ سہل بن حنظلہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب صبح ہوئی تو رسول خدا ﷺ نماز کی جگہ تشریف لائے اور دو رکعت (سنت فجر) پڑھ کر دریافت فرمایا کہ کیا تم نے اپنے سوار کا کچھ پتہ نشان پایا(یعنی مسلمانوں کا محافظ سوار جو گھاٹی پر حفاظت کرنے رات بھر کے لئے گیا تھا واپس آیا کہ نہیں) سب نے عرض کیا کہ کچھ پتہ نشان نہیں دیکھا۔ اس کے بعد نماز (فرض) کے لئے تکبیر کہی گئی (یہ ایک بہت طویل حدیث کا ٹکڑا ہے جس میں حالتِ سفر کے ایک واقعہ کو بیان کیا ہے) (ابوداو‘د)
۲۷:۔ نماز ظہر سے پہلے چار سنتیں اگر جماعت کی عجلت میں چھوٹ جائیں تو فرض کے بعد اوّل ان کو قضا کرے یا ظہر کے بعد کی معمولی دو رکعتوں کو مقدّم کرے؟
۔ جائز تو دونوں صورتیں ہیں خواہ اِن کو اوّل پڑھے یا اُن کو۔ لیکن اس امر میں علماء میں اختلاف ہے کہ بہتر کون سی بات ہے۔ زیادہ راجح اور قوی قول یہ ہے کہ معمولی دو رکعت کو مقدم کرلے اور چار کو اس کے بعد قضا کرے۔
:۔ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر کبھی رسول اﷲ ﷺ کی چار رکعتیں ظہر سے پہلے چھوٹ جاتی تھیں تو آپ اُن کو ظہر کے بعد کی دو سنتوں سے پیچھے ادا فرما لیتے تھے۔ (ابن ماجہ)
۲۸:۔ فرض پڑھنے کے بعد اکثر لوگ اپنی جگہ سے ہٹ کر سُنت و نفل پڑھتے ہیں یہ کوئی شرعی حکم ہے یا کوئی لوگوں کا ایجاد ہے؟
۔یہ حکم سرور کائنات علیہ السلام کا ہے کہ جس جگہ فرض پڑھا ہے وہاں سے کسی قدر اِدھر ادھر ہو کر سنت ونفل پڑھے اسی جگہ نہ پڑھے البتہ اگر فرض کے بعد کچھ کلام کرلیا ہے تب جگہ بدلنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ سنت وفرض میں جو فصل و فرق جگہ بدل کر کرانا مقصود تھا وہی فصل کلام وگفتگو سے بھی حاصل ہوگیا۔
:۔ ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ جب (فرض کے بعد سنّت و نفل) نماز پڑھنے لگو تو ذرا آگے پیچھے یا دائیں بائیں کو ہٹ جاؤ۔ (ابوداو‘د)