کہ جس کے پتے نہیں جھڑتے (یعنی دوسرے درختوں کی طرح خزاں نہیں آتی) اور( نفع رسانی اور سادگی میں)وہ مسلمان کے مانند ہے۔ تم لوگ مجھ کو بتلاؤ کہ وہ کون سا درخت ہے۔ (ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ لوگوں کا خیال جنگل کے درختوں میں جا پڑا اوراپنی اپنی رائے کے موافق بہت سے مختلف درختوں کے سب نے نام بتلائے) میرے خیال میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے(لیکن چونکہ میں سب سے کم عمر تھا اس لئے حیا کر کے خاموش ہو رہا۔ جب کوئی نہ بتلا سکا تو لوگوں نے عرض کیا کہ یا حضرت! آپ ہی فرمائیے کہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے (بخاری شریف مطولا و مختصراً)
۱۲۰:۔ کسی بلند جگہ پر چڑھنے کے لئے بجائے زینہ کے کسی آدمی کی گردن یا کمر پر پاؤں رکھ کر چڑھ جانا بھی جائز ہے یا نہیں؟
۔ بوقتِ ضرورت آدمی کو نیچے بٹھلا کر اُس پر چڑھ کر بلندی تک پہنچ جانے میں کچھ حرج اور ممانعت نہیں۔
زبیرؓ فرماتے ہیں کہ اُحُد۱؎ کے روز رسول اﷲﷺ دو زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ ایک پتھر پر چڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو چڑھ نہ سکے (کیونکہ زرہ کے بوجھ سے بدن بھاری ہورہا تھا اور پتھر زیادہ بلند تھا) تو طلحہؓ پتھر کے نیچے بیٹھ گئے اور آں حضرت ﷺ ان کی پُشت پر پہنچ کر سیدھے کھڑے ہوگئے۔ (ترمذی)
۱۲۱:۔ کسی شخص کو جو واقع میں چچا، ماموں وغیرہ نہ ہو کسی دور کے علاقہ کی وجہ سے نانا، ماموں، چچا وغیرہ کہہ دینا (جیسے کہ اکثر نانہال کے محلہ والوں بلکہ شہر والوں کو ماموں، نانا اور اپنے باپ کی طرف سے لوگوں کو چچا وغیرہ کہنے لگتے ہیں) جھوٹ میں داخل ہے یا جائز ہے؟
۔ اس قسم کی قرابت کا نام لے دینا بہت خفیف علاقہ کی صورت میں بھی جائز ہوجاتا ہے۔ اور بِلا تعلق بھی اگر تعظیم وغیرہ کے لئے ایسے القاب لگادے تو جائز ہے۔
خدیجہؓ نے (رسول اﷲﷺ کو ورقہ۱؎ بن نوفل کے پاس لے جا کر) کہا اے چچا کے بیٹے اپنے بھتیجے کا حال سُنو (چونکہ ورقہ کے پردادا یعنی دوسرے دادا اور رسول اﷲﷺ کے تیسرے دادا باہم بھائی تھے اس علاقہ سے خدیجہؓ نے بھتیجا فرمایا) (بخاری۔ مسلم)
جابرؓ فرماتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاصؓ سامنے آئے تو رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ یہ میرے ماموں ہیں بھلا کوئی شخص ایسا ماموں دکھلائے تو (یعنی اسے معظم و مکرم فضیلت والا اور کسی کا ماموں نہیں۔ چونکہ سعدؓ قبیلہ بنی زہرہ میں سے تھے اور آں حضرتﷺ کی والدہ ماجدہ بھی اسی قبیلہ میں سے تھیں اس لئے آپ نے ماموں فرمایا (ترمذی)