۔ چونکہ کشتی باہمی عداوت اور ایذا رسانی کے خیال سے نہیں ہوتی بلکہ قوت بڑھانے کی مشق کا ایک طریقہ اور فن ہے اور طرفین کی رضا سے ہوتا ہے لہٰذا جائز ہے۔ البتہ جس جگہ۱؎ کا چھپانا فرض ہے اس کو برہنہ کرنا(جیسا کہ آج کل مروج ومعمول ہے) حرام ہے۔
محمد بن علیؓ (رکانہ کے پوتے) کہتے ہیں کہ (ہمارے دادا) رکانہ نے رسول اﷲﷺ کے ساتھ کشتی کی تو آنحضرتﷺ نے رُکانہ کو پچھاڑ دیا (یعنی آنحضرتﷺ نے چِت کر دیا اور غالب آئے) ابوداؤد
۱۱۴:۔ اُونٹ ،گھوڑے وغیرہ کی گھوڑ دوڑ کرانا جائز ہے یا نہیں؟
۔ جائز ہے لیکن ہارجیت پر جانبین سے کوئی شرط نہ ہو۔ یا تو بالکل ہی شرط نہ ہو یا ایک طرف سے ہو مثلاً زید کہے کہ اگر ہمارا گھوڑا پیچھے رہ گیا تو ہم اپنے پاس سے دوسرے گھوڑے والے کو پچاس روپے دیں گے ۔ اور اگر آگے بڑھ جانے والے کے لئے کوئی تیسرا شخص انعام مقرر کر دے تو بھی درست و جائز ہے۔ اور جس طریقہ سے کہ آج کل شرط کی جاتی ہے (یعنی) جانبین میں سے ہر شخص کہتا ہے کہ جس کا گھوڑا آگے نکل جائے اس کو اِس قدر دیا جائے ممنوع و ناجائز ہے۔
ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ان گھوڑوں میں سے جو اضمار۱؎ کرائے گئے تھے حفیاء سے دوڑ کرائی اور اس کی حد اور انتہا ثنیۃ الوداع تھی اور اُن گھوڑوں میں جو اضمار نہیں کرائے گئے تھے ثنیۃ الوداع سے بنی زریق کی مسجد تک دوڑ کرائی۔ (بخاری۔ مسلم۔ ابوداؤد)
ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ گھوڑوں کو دوڑانے کے لئے اضمار کرایا کرتے تھے (ابوداؤد)
۱۱۵:۔ اپنے مُلک کی بنی ہوئی چیزوں کو دوسرے ملک کی چیزوں پر ترجیح دینا اور ان کے استعمال کی رغبت دلانا جائز ہے یا نہیں؟
۔ چونکہ اپنے ملک کی مصنوعات کے استعمال میں دینی و دُنیوی فوائد ہیں لہذا ان کو ترجیح دے کر استعمال کی رغبت دلانا جائز و مباح ہے ایسے طریق سے کہ ملک میں فساد برپا نہ ہو۔
سیدناعلیؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اﷲﷺ عربی کمان دستِ مبارک میں لئے ہوئے تھے۔ آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ فارسی کمان لئے ہوئے ہے۔ آپ نے فرمایا کہ واہ! یہ کیا لے رہے ہو، اُس کو پھینک دو (اور اپنی کمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا) اور اس طرح کی کمانیں لیا کرو ، ان چیزوں سے خدا تعالیٰ تم کو دین میں بھی زیادتی عطا فرمائے گا اور دوسرے ملکوں میں تم لوگوں کی قوت اور رسوخ بٹھلا دے گا۔(ابن ماجہ)
۱۱۶:۔ رسول اکرمﷺ نے کبھی دستِ مبارک میں