گویا آپ (مرزاقادیانی) کا دعویٰ، بروز، ظل، غلام کا تھا اور نام بھی غلام احمد، درج بالا تمہید سے واضح ہوتا ہے۔ احمدؐ و محمدؐ ایک ہی نبی کے دو نام ہیں۔ جبکہ مرزا غلام احمد ایک الگ شخصیت ہیں۔ اب احمدؐ اور محمدؐ کو ماننے والے تو اپنے آپ کو احمدی یا محمدی کہہ سکتے ہیں جبکہ غلام احمد کو ماننے والے اپنے آپ کو ’’غلام احمدی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ مرزا غلام احمد کو ماننے والے اپنے آپ کو کیونکر احمدی کہہ سکتے ہیں؟
مرزاقادیانی کے لفظ ’’مرزا‘‘ سے ماننے والے ’’مرزائی‘‘ بھی کہلاتے ہیں اور قادیانی کے نام کے حوالے ’’قادیانی‘‘ بھی کہلاتے ہیں۔ اسی وزن پر وہ ’’غلام احمدی‘‘ کہلا سکتے ہیں۔
بہاء اللہ کو ماننے والے بہائی۔ غلام احمد پرویز کو ماننے والے پرویزی۔ حضرت عیسٰیؑ کو ماننے والے عیسائی۔ امام مالک کے فقہ کو ماننے والے ’’مالکی‘‘ امام ابو حنیفہ کے فقہ پر عمل کرنے والے ’’حنفی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ایسی مثالیں ہیں جو سربراہ یا رہنما کے نام کے حوالے سے پہچانے جانے لگے۔ اسی طرح مرزا غلام احمدقادیانی کو ماننے والے ’’غلام احمدی‘‘ تو کہلا سکتے ہیں۔ صرف ’’احمدی‘‘ نہیں۔ اس لیے مسلمانوں کے نزدیک قادیانیوں کی یہ ’’حرکت‘‘ خاصی قابل اعتراض ہے۔
اگر احمدی نام سے مراد حضرت محمدﷺ کے دوسرے نام ’’احمد‘‘ کی مناسبت سے پہچان کروانا مقصود ہے تو پھر مرزاقادیانی کا وجود تو باہر نکل جاتا ہے۔ تمام مسلمان پہلے سے ہی محمد و احمد نام سے منسوب ہیں۔ اس طرح سے وہ محمدیؐ یا احمدیؐ ہیں۔ اگر مرزاقادیانی کے ماننے والے بھی اس ہستی (محمدؐ و احمدؐ) سے براہِ راست رابطہ جوڑنے کی کوشش کریں تو پھر دو امکانات ہیں۔ اول یہ کہ مرزاقادیانی کے ماننے والے محمدؐ و احمدؐ والی شخصیت کے دامن سے منسلک ہو جائیں اور کسی قسم کی ملاوٹ نہ کریں اور درمیان سے ہندوستانی و پاکستانی عنصر نکال کر خالص اسلام کو اپنا لیں تو پھر امت مسلمہ کے لیے بہت بابرکت ہوگا۔
دوسرا امکان یہ ہے کہ محمدؐ و احمدؐ سے رابطہ جوڑنے کی بات کریں اور ساتھ مرزاقادیانی کے وجود کو بھی اس میں داخل کریں تو یہ سراسر زیادتی، دھاندلی اور جارحانہ پن ہوگا۔ اس کوشش اور عملی مشق کے باوجود اگر مسلمان آپ سے حسن سلوک اور رواداری قائم رکھے ہوئے ہیں تو ان کے یا تو ’’اعلیٰ اخلاق‘‘ کی دادیں اور یا پھر ان کی ’’بے حسی‘‘ اور کم ہمتی پر تالیاں بجائیں۔ آخری صورت بالکل اسی طرح جاری ہے۔ صرف تالیوں کی آواز ابھی تک مسلمانوں کو سنائی نہیں دے