(الاحزاب:۴۰)‘‘ {محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے، لیکن رسول ہے اﷲ کا اور خاتم النبیین۔}
۴… ’’وماارسلنٰک الا کافۃ للناس بشیراً ونذیراً (سبا:۲۸)‘‘ {اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا، سو سارے لوگوں کے واسطے خوشی اور ڈرسنانے کو۔}
اس کے علاوہ آنحضرتﷺ نے خود بھی فرمایا:
۱… ’’أنا خاتم النبیین لا نبی بعدی (ترمذی ج۲ ص۴۵)‘‘ {میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔}
۲… ’’انا آخر الانبیاء وانتم آخر الامم (ابن ماجہ ص۲۹۷)‘‘ {میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔}
۳… ’’لوکان موسیٰ حیاً ما وسعہ الا اتباعی (مشکوٰۃ ص۳۰)‘‘ {اگر موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔}
اب جب کہ قرآن کریم نازل ہوچکا اور حضرت محمدﷺ تشریف لے آئے تو ثابت ہوا کہ آپﷺ، اﷲ کے آخری نبی ہیں اور قرآن کریم اﷲ کی آخری کتاب ہے۔ لہٰذا آپﷺ کے دین وشریعت کا سکہ قیامت تک چلے گا۔ اس لئے جو شخص اس جدید ورائج قانون اور آئین الٰہی کی مخالفت کرے گا اور سابقہ منسوخ شدہ دین وشریعت یا کسی خود ساختہ مذہب جیسے موجودہ دور کے متعدد باطل وبے بنیاد ادیان ومذاہب… مثلاً: ہندو، پارسی، سکھ، ذکری، زرتشتی اور قادیانی وغیرہ… میں سے کسی کی اتباع کرے گا۔ وہ باغی کہلائے گا۔ دین وشریعت، قرآن وسنت اور عقل ودیانت کی روشنی میں اس کی سزا وہی ہوگی جو ایک باغی کی ہونی چاہئے اور وہ قتل ہے۔
اسی لئے قانون ارتداد پر قادیانیوں کی طرف سے یہ اعتراض خالص دجل وفریب اور دھوکا ہے کہ: ’’کیا اس حکم سے یہ تأثر نہیں ملتا کہ تبدیلی مذہب کی اجازت دینے سے حضرت کو مسلمانوں کی تعداد میں کمی کا خدشہ تھا۔ حضرت محمد نے مذہب کے فروغ کے لئے اور اسلام بذریعہ تبلیغ کے بجائے خاندانی یا موروثی اسلام کو ترجیح دی۔ کیونکہ بذریعہ آبادی اسلام پھیلانے کا یہ سب سے آسان اور مؤثر فارمولا تھا۔ جیسے جیسے آبادی بڑھے گی۔ مسلمان خود بخود بڑھتے چلے جائیں گے۔ جو تبدیلی چاہے اسے قتل کر دیا جائے۔‘‘
کیونکہ یہ قانون مسلمانوں کی تعداد بڑھانے کے لئے نہیں۔ بلکہ اسلام دشمنوں کی راہ روکنے کے لئے ہے۔ اس لئے کہ کسی ملک میں انسداد بغاوت اور جرائم کی روک تھام کا قانون کسی