ہے کہ: ’’بلاشبہ ہر دور میں امت کو ہدایت وراہنمائی کی ضرورت رہی ہے اور اﷲتعالیٰ نے امت کی راہنمائی کے لئے نبی بھیجے اور جب تک امت کو نبی کی راہنمائی کی ضرورت رہی۔ اﷲتعالیٰ یکے بعد دیگرے نبی بھیجتے رہے۔ لیکن جوں ہی نبی آخرالزمان حضرت محمدﷺ کو ختم نبوت کے اعزاز سے سرفراز فرمایا گیا اور کسی دوسرے نبی کی ضرورت نہ رہی تو اﷲتعالیٰ نے اعلان فرمادیا کہ اب مزید کسی دوسرے شخص کو نبی نہیں بنایا جائے گا اور ارشاد فرمادیا کہ: ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیٔ علیما (الاحزاب:۴۰)‘‘ {محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن اﷲ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے ختم پر ہیں اور اﷲتعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔}‘‘
اس ارشاد الٰہی سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ کی ختم نبوت کا اعلان حضرت محمدﷺ نے ازخود نہیں فرمایا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے بہ نفس نفیس اس کا اعلان فرمایا ہے۔ اس لئے قادیانیوں کا یہ کہنا کہ: ’’کہیں ایسا تو نہیں کہ حضرت محمدﷺ نے رہتی دنیا تک اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لئے خود ہی آخری نبی ہونے کا دعویٰ کر دیا ہو؟‘‘ سراسر ہرزہ سرائی اور آنحضرتﷺ کی ذات عالی پر بہتان وافتراء ہے۔
صرف یہی ایک آیت نہیں، بلکہ قریب قریب ایک سو سے زائد آیات میں اﷲتعالیٰ نے آنحضرتﷺ کی ختم نبوت کا اعلان فرمایا ہے۔ ملاحظہ ہو ’’ختم نبوت کامل‘‘ مؤلفہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اﷲ!
رہی یہ بات کہ اب کسی دوسرے نبی کی ضرورت کیوں نہیں رہی؟ اور آپ کو آخری نبی کیوں قرار دیا گیا؟ اس کا جواب بھی اﷲتعالیٰ نے اسی آیت میں خود ارشاد فرمادیا کہ اﷲتعالیٰ ہی ہر چیز کی ضرورت وعدم ضرورت کی حکمت کو خوب جانتے ہیں۔ اس پر کسی کو لب کشائی کی اجازت نہیں۔ لہٰذا اب قادیانیوں کو چاہئے کہ اﷲتعالیٰ سے براہ راست پوچھیں، اس کی قوت قاہرہ کی آہنی دیوار سے اپنا سرپھوڑیں اور احتجاج کریں کہ آپ نے حضرت محمدﷺ کو آخری نبی کیوں قرار دیا؟
الغرض قادیانیوں کا یہ اعتراض مسلمانوں یا حضرت محمدﷺ کی ذات پر نہیں۔ بلکہ براہ راست قرآن کریم اور اﷲتعالیٰ کی ذات پر ہے۔
چلئے! اگر ایک لمحے کے لئے قادیانیوں کا یہ سوال صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو کیا کل کلاں کسی کو اس کا حق بھی ہوگا کہ وہ یہ کہے کہ اﷲتعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پہلے اور نوح، شیث ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام کو بعد میں کیوں مبعوث فرمایا؟ اسی طرح کیا نعوذ باﷲ! کسی کو یہ