ہے اور نہ جلد یا بدیر نقصان پہنچانے والی چیز ہے ۔ تو جو کوئی اسکو حرام کہتاہے وہ دلیل پیش کرے ، محض قیل و قال سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ جن اہل علم نے قرآن کی آیت ’’ویحل لھم الطیبات ویحرم علیھم الخبآئث ‘‘ (الاعراف : ۱۵۷) سے اسے خبیث قرار دے کر حرام بتایا ہے درست نہیں ہے ، اس درخت کا خبیث ہونا ہی محل نزاع ہے ، نیز آیت مذکورہ سے اس کی حرمت ثابت کرنا تو یہ زبردستی مفہوم نکالنا ہے ، کیونکہ جو لوگ اسے استعمال کرتے ہیں اسے طیبات میں سے شمار کرتے ہیں ، رہا بعض افراد کا اسے خبیث کہنا تو شہد جیسی پاکیزہ چیز بھی بعض لوگ پسند نہیں کرتے ، یہ بھی ثابت ہے کہ حضور ﷺ نے گوہ کو نا پسند کیا اور اسے تناول نہیں کیا جب کہ آپ کے سامنے بعض صحابہ نے اسے کھایا ، جولوگ انصاف سے کام لیں گے یہ دیکھیں گے کہ بہت سے جاندار وغیرہ جو شریعت نے حلال بتائے ہیں یا براء ت اصلیہ سے حلال ہیں ان میں سے کسی کو کوئی شخص پسند کرتاہے ، اور کوئی دوسرا اسکو ناپسند یعنی اسے خبیث تصور کرتاہے ، اگر بعض افراد کے خبیث کہنے سے کوئی چیز حرام ہوجائے تو شہد ، اونٹ ، گائے اور مرغی کے گوشت حرام ہوجائیں گے ، کیونکہ بعض لوگ ان اشیاء کو ناپسند کرتے ہیں ، جب لازم باطل ہے تو ملزوم بھی باطل ، اس سے یہ ثابت ہوا کہ تمباکو کو اس وجہ سے حرام کہنا کہ اسے بعض لوگ خبیث اور ناپسندیدہ چیز تصور کرتے ہیں درست نہیں ہے ‘‘ ۱؎
مولانا عبد الرحمن مبارکپوری ؒ نے تحفۃ الأحوذی جلد ۳ ص ۴۳ میں شوکانی کی مذکورہ بالا عبارت کا رد کیا ہے جس کا تذکرہ حرمت کے بیان میں آئے گا ۔
صاحب سبل السلام محمد بن اسماعیل الکحلانی الصنعانی بھی جواز کے قائل تھے اور اس
------------------------------