پیے گا توا سکو ایک طرح کی متلی کی کیفیت پیدا ہوگی اور یہ کیفیت حرمت کو واجب نہیں کرتی ،اور اس بات کا دعویٰ کرنا کہ وہ اسراف ہے تو یہ تمباکو کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے اور ولی امر ( حاکم یا اس کا نائب ) کی ممانعت کا دعوی بھی ایسا ہی ہے ، لہذا حرمت کے قائلین کے لیے اب کوئی دلیل نہیں رہ گئی جیسا کہ ہمارے بعض مشائخ نے لکھا ہے ‘‘ ۔
نیز انہوں نے عبد الغنی نابلسی کے رسالہ کی تعریف کی ہے اوریہ دعوی کیا ہے کہ جمہور نے نابلسی کے موقف کی تائید کی ہے اورا س سے اتفاق کیا ہے ۔
الفواکہ العدیدۃ کے مؤلف اپنے شیخ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
’’ والظاھر أن الکراھۃ لاشک فیھا ، والتحریم ففیہ شک ، لأن إسکارہ من حیثیۃ الدخان بتضییق المسام لا من شیئٍ فیہ ، ومعلوم أن کل من شرب دخاناً کائناً ماکان ، أسکرہ بمعنی أشرقہ وأذھب عقلہ بتضییق أنفاسہ ومسامہ علیہ ، لا سکر اللذۃ والطرب ‘‘ ۱؎
ترجمہ :۔ ’’ ظاہر یہ ہے کہ اس کی کراہت میں کوئی شک نہیں ہے، حرمت میں شک ہے کیونکہ اس کا نشہ اس حیثیت سے ہے کہ دھواں مسام کوتنگ کردیتاہے نہ کہ اس میں کسی دوسری چیز کی وجہ سے ایسا ہوتاہے اور یہ معلوم ہے کہ جو کوئی کسی قسم کا دھواں پیے گا اس کو نشہ کرے گا یعنی اسکو اُچھّولگے گا ، اور اسکی عقل زائل کرے گا ، اس کے سانس اور مسام کو تنگ کرکے نہ کہ لذت او ر مستی کے نشہ سے ایسا ہوگا ‘‘۔
------------------------------