لاضرر فیہ ، فیعمل بالأصل وأما إطلاق تحریمہ فخطأ واضح ، وھجم فاضح قال اللہ تعالیٰ ’’ولا تقولوا لما تصف ألسنتکم الکذب ھذا حلال وھذا حرام لتفتروا علی اللہ الکذب إن الذین یفترون علی اللہ الکذب لا یفلحون ‘‘ ۱؎
ترجمہ: ’’ جو کچھ پہلے گزرا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کا استعمال اس کے لیے جائز ہے جس کو نقصان نہ کرے،اور جس کو نقصان کر ے اس کے لیے حرا م ہے، اور جواز کی وجہ اور علت یہ ہے کہ اصل اس میں اباحت ہے کیونکہ اس میں کوئی نقصان نہیں ہے، لہذا اصل پر عمل کیاجائے گا اور رہا اس کو مطلق حرام قرار دینا تو واضح غلطی ہے او رکھلا ہو ا حملہ ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا جھوٹا زبانی دعویٰ ہے ان کی نسبت یو ں مت کہو کہ فلاں چیز حلال ہے اور فلاں چیز حرام ہے جس کا حاصل یہ ہو گا کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگادوگے بلا شبہ جو لوگ اللہ پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں وہ فلاح نہ پائیں گے ٔ ‘‘ ۔ (النحل۔۱۱۶)
محمد بن احمد شوبری شافعی نے بھی اباحت کا فتوی دیا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
’’ لیس شرب الدخان حراماً لذاتہ بل ھو کغیرہ من المباحات ودعوی کونہ حراماً لذاتہ من الدعاوی التی لا دلیل علیہا ، وإنما منشؤھا إظہار المخالفۃ علی وجہ المجازفۃ ‘‘ ۱؎
ترجمہ: ’’ تمباکو نوشی فی نفسہ حرام نہیں ہے، بلکہ مباح اشیاء کے مانند ہے
------------------------------