یختلف باختلاف الأمزجۃ والقلۃ والکثرۃ ، وقد یغیب عقل شخص ولا یغیب عقل آخر ، وقد یغیب من استعمال الکثیر دون القلیل ، فلا یسع عاقلا أن یقول: إنہ حرام لذاتہ مطلقاً إلا إذا کان جاہلا أومکابرًا معانداً ‘‘۱؎
ترجمہ: ’’ علماء کے مابین ان اشیاء میں اختلاف ہو اہے ، جن کا حکم شرع میں وارد نہیں ہے اور اس میں راجح یہ ہے کہ مضر چیز حرام ہے اور غیر مضر حلال ، اور آپ جانتے ہیں کہ تمباکو نوشی کی شروعات کر نے والوں میں سے بعض کو جو فتور لاحق ہو تا ہے یہ ویسا ہی ہے جیسا کہ گرم پانی میں اترنے والے یادست آور دوا پینے والے کا حال ہو تا ہے اس سے عقل بالکل نہیں زائل ہو تی ہے، جیسا کہ بعض ناواقف لو گو ں کا خیال ہے، اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ تمباکو عقل زائل کر نے والی چیزوں میں سے ہے توپھر بھی وہ یقینا نشہ آور نہیں ہے، جیسا کہ معلوم ہے کہ وہ کیفیت سرور و کیف کے ساتھ نہیں ہو تی ، لہذا اس کا استعمال اس شخص کے لیے جائز رہے گا جس کی عقل کو وہ زائل نہ کرے ، جیسے افیم کا استعمال اس شخص کے لیے جائز ہے جس کی عقل کو زائل نہ کرے اور یہ صورت حال مزاجوں کے اختلاف اور قلت وکثرت پرمنحصر ہے کہ کسی شخص کی عقل زائل ہو جاتی ہے اور دوسرے کی نہیں اور کبھی زیادہ کے استعمال سے عقل زائل ہو تی ہے اور قلیل سے نہیں ، اس لیے کوئی دانشمند یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ فی نفسہ مطلق حرام ہے ، الا یہ کہ وہ نادان متکبر اور ضدی ہو ‘‘
------------------------------